بلدیاتی ادارے معطل کیوں؟
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب اور ملک بھر میں بلدیاتی نظام بحال کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت کورونا کی وبا نے پوری دنیا کے معاشی نظام متاثر کئے ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے جس کی معاشی حالت اس حکومت نے برباد کر دی اور اب کورونا وبا کی وجہ سے عوام پر جو مصیبت آئی اس کی وجہ سے لوگ روٹی سے بھی عاجز ہو گئے۔حکومت سرکاری خزانے کو اپنا ذاتی مال سمجھ کر اپنے کارکنوں کو نواز رہی ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت کے اجلاس سے خطاب کے دوران مطالبہ کیا کہ بلدیاتی ادارے بحال کرکے امداد اور راشن کی تقسیم کا کام ان سے لیا جائے کہ موجودہ حالات میں شکایات ملی ہیں اور مجمع ہونے کی وجہ سے کورونا پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔قائد حزب اختلاف کا یہ بیان حقائق کے قریب تر ہے کہ اس وقت احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے فی خاندان جو رقم تقسیم کی جا رہی ہے۔اس کے حوالے سے شکایت بجا ہے، مختلف شہروں سے اب تک کی خبروں سے تو یہی تاثر ملا کہ بہتر انتظام نہیں۔ لوگ ایک جگہ جمع رہتے ہیں اور ایک میٹر والے فاصلے کا فلسفہ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ وزیر اعظم خود اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کے سب سے بڑے وکیل ہیں، لیکن خود ان کی پنجاب حکومت نے نئے نظام کے نام سے بلدیاتی منتخب اراکین کو گھر بھیج دیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت تھی،اگر یہ ادارے موجود ہوں تو یہ امداد اور راشن بہتر طور پر لوگوں کو گھر میں مل جاتا، جبکہ مالی امداد کے لئے تحقیق زیادہ بہتر ہوتی اور شکایات کم ہوتیں، اس حوالے سے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا مطالبہ بلاجواز نہیں بہتر ہوتا کہ ایسا پہلے کر لیا جاتا اب بھی سابقہ ادارے بحال کرکے ان سے بہتر کام لیا جا سکتا ہے۔