ظاہرے شاہ کی بیٹی کا پہلا سیاسی معرکہ
10جنوری 2021 کو ڈسکہ ضمنی الیکشن کے بارے میں "ابتدائی تجزیہ" کے عنوان سے دو تین سطری "سیاسی تبصرے "میں گذارش کی تھی کہ ضلع سیالکوٹ کے قابل اعتماد اخبار نویس کہتے ہیں اگر شفاف انتخاب ہوا تو ن لیگی امیدوار سیدہ نوشین افتخار جیت جائیں گی....این اے 75کے یہ نتائج "نوشتہ دیوار "تھے مگر اقتدار کی غلام گردشوں میں کھوئے لوگ دیوار پر لکھے "عوامی جذبات "کب پڑھتے ہیں؟؟؟؟ وہ اپنے "مزاج گرامی "کےبرعکس کچھ دیکھنا سننا پسندنہیں کرتے...میڈیا رپورٹس کے مطابق 19فروری کو ڈسکہ میں بھی" من پسند نتائج" کی خواہش نے انتخابی عمل "دھندلا" دیا...الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم دیا تو سپریم کورٹ نے بھی آخر یہی فیصلہ سنایا...
ڈسکہ الیکشن بڑا سیدھا سادہ تھا...بنیادی طور پر یہ حلقہ کوئی سوا صدی سے آلو مہار شریف کے سید خاندان کی عقیدت میں سر نگوں ہے،دوسرے مسلسل 13سال سے یہ نشست ن لیگ کے پاس چلی آرہی ہے،تیسری بات سیالکوٹ کے اس خطے کی روایت ہے کہ وہ اپنی بہن بیٹیوں کوخالی ہاتھ گھر سےنہیں جانے دیتے. ..اس منظر نامے سے صاف نظر آرہا تھا کہ سیدہ نوشین افتخار ہی فاتح ٹھہریں گی....
مشرقی انداز میں بڑی سی چادر اوڑھے سیدہ نوشین کے لہجے کی گھن گرج دیکھی تو ان میں اپنے دبنگ باپ سید افتخار الحسن اور دادا سید فیض الحسن شاہ صاحب کی جھلک دکھائی دی...ماضی کے اوراق پلٹے تو ان کے جد امجد کا شملہ بہت اونچا نظر آیا....1911کو آلو مہار میں سید محمد حسین شاہ صاحب کے ہاں آنکھ کھولنے والے سید فیض الحسن شاہ اپنے وقت کے بلند پایہ عالم دین اور مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویٹ تھے....وہ اعلی درجے کے خطیب ،ادیب اور شاعر بھی تھے...1932میں اپنے والد گرامی کی وفات کے بعد آلو مہار شریف کی مسند پر بیٹھے...وہ معتدل آدمی تھے... تقسیم سے قبل مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دست راست تھے.....قیام پاکستان کے بعد ہم خیال علماء سے ملکر جمعیت علماء پاکستان بنائی تھی.....وہ مجلس احرار کے صوبائی صدر اور جے یو پی کے 19سال سربراہ رہے......
سید عطا اللہ شاہ بخاری کا ذکرآیا تو ان کا ایک چٹکلہ بھی پڑھ لیجیے.....جب پیر فیض الحسن نے مجلس احرار چھوڑ دی تو کسی نے امیر شریعت سے سوال کیا کہ شاہ جی یہ کیا ہوا آپ کے دیرینہ ساتھی چھوڑ گئے تو آپ نے مسکراتے ہو ئے فرمایا :نوری ہمیں واقعہ معراج کے وقت بھی چھوڑ گئے تھے.....فیض الحسن شاہ صاحب 1948کی جنگ آزادی کشمیر میں پیش پیش تھے.....تحریک تحفط ختم نبوت میں بھی بھر پور حصہ لیا اور کئی مہینے جیل بھی کاٹی...بزرگوں کے بقول 1974ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا تو فیض الحسن شاہ عملی سیاست سے دستبردار ہوگئے کیونکہ انہوں نے بھٹو صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو وہ وہ عملی سیاست کو خیر باد کہہ دینگے......ملک کے طول و عرض میں ان کی خطابت کا شہرہ تھا.... تقریر دلپذیر کے باعث انہیں خطیب اسلام بھی کہا جاتا تھا.......
انہوں نے 1965کی پاک بھارت جنگ میں شہر شہر قوم کے حوصلے بڑھائے... ریڈیو پاکستا ن نے انکی ولولہ انگیز تقریروں کو خصوصی پر نشر کیا...جنگ میں ان کی خدمات پر انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا...وہ 22 فروری 1984کو خالق حقیقی جاملے...لوگ آج بھی آلو مہار کے ان سید بادشاہوں کی مالا جپتے ہیں... ان کے نام پر نوٹ بھی دیتے ہیں اور ووٹ بھی...سید افتخار الحسن شاہ اپنے والد کے برعکس سیاسی لیڈر بن کر ابھرے...... ظاہرے شاہ کے نام شہرت پانے والے افتخار الحسن عوامی آدمی اور اچھے مقرر تھے...طبیعت میں خوب مزاح تھا....لطائف سناتے اور اپنے انداز میں اقبال کے اشعار پڑھ کر محفل لوٹ لیتے...
ظاہرے شاہ پہلی مرتبہ 1979 میں ضلع کونسل کے رکن بنے....1985، 88، ،90 میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے...1993میں ن لیگ کی نشست پر پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بنے...1997،2013 اور 2018میں بھی ایم این اے رہے...2013 میں علی اسجد ملہی کو شکست دی....2002 اور2008میں کچھ وجوہ پر اپنے داماد اور سیدہ نوشین کے شوہر سید مرتضی امین کو میدان میں اتارا...مرتضی امین پہلا الیکشن ہار گئے جبکہ دوسرے مقابلے میں ق لیگ کے امیدوار علی اسجد ملہی کو شکست دیکر قومی اسمبلی پہنچ گئے....نوے کی دہائی سے کامیابیوں کا یہ تسلسل آلومہار درگاہ اور ن لیگ کی جاندار" روحانی، سیاسی رفاقت" کا منہ بولتا ثبوت ہے......دونوں نے ایک دوسرے سے" عہد وفا" خوب نبھایا ہے....
2اگست 2020 کو افتخار الحسن شاہ کی اچانک وفات کے بعد ان کی صاحبزادی سیدہ نوشین اپنے والد گرامی کی وصیت کے مطابق سیاسی میدان میں اتریں..وہ آئیں اور چھا گئیں....
ڈسکہ الیکشن سے پہلے نوشین افتخار کو سنئیر صحافی سہیل وڑائچ کیساتھ پراعتماد لہجے میں گفتگو کرتے دیکھا تو ظاہر شاہ صاحب یاد آگئے ... تین سال پہلے سید افتخار الحسن ہماری دعوت پر لاہور پریس کلب تشریف لائے...ڈسکہ، پسروراور لاہور کی"شہریت" والے اپنے عزیز از جان صحافی دوست جناب حافظ ظہیر اقبال اعوان سے کہا کہ کلب میں کھلیوں کی ایک سرگرمی ہونے جارہی ہے...شاہ جی کو بطور مہمان خصوصی ہی مدعو کرلیں...انہوں نے شاہ جی کے معتمد خاص جناب حاجی وارث سے بات کی...حاجی وارث کئی سال پہلے شکرگڑھ چھوڑ کر آلو مہار کی درگاہ پر آئے اور پھر ظاہرے شاہ کے ہی ہو کر رہ گئے...حاجی صاحب کی مہربانی کہ وہ مقررہ تاریخ پر شاہ جی کو لیکر شملہ پہاڑی پہنچ گئے... اتفاق سے اس وقت کلب میں "ایک شام سہیل وڑائچ کے ساتھ"کی تقریب چل رہی تھی.. شاہ صاحب کچھ دیر سہیل وڑائچ کے ساتھ بیٹھے اور پھر کیرم ٹورنامنٹ کا افتتاح کرکے چل دیے....یہ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہے...وہ اتنی گرمجوشی سے ملے کہ یوں لگا کہ پرانے ملنے والے ہیں...پھر حاجی وارث نے کئی مرتبہ شاہ جی کی طرف سے آلو مہار میں کھانے کی دعوت دی مگر مصروفیات نے روکے رکھا....
ریڈیو ،ٹی وی جرنلسٹ محترمہ سیدہ نوشین نقوی کی سیادت میں لاہور کی خواتین صحافیوں کا وفد ہیڈ مرالہ گیا تو بھی شاہ جی نے لنچ ڈنر کا کہا لیکن وقت کی قلت آڑے آگئی...عجب آزاد مرد تھا حق مغفرت کرے...!!!!
ڈسکہ الیکشن میں تیسرا فیکٹر بھی بڑا دلچسپ ہے...آلو مہار کی سید زادی نے انتخابی مہم کے دوران بڑے جذباتی انداز میں عوام سے استفسار کیا کہ ظاہرے شاہ کی بیٹی آپ کے پاس آئی ہے...کیا بیٹی کو خالی ہاتھ بھیجو گے؟؟؟یہاں کے لوگ تو سید زادوں کے ہاتھ چومتے نہیں تھکتے ...یہ تو پھر سید زادی کا سوال تھا...سیالکوٹ کے باسیوں نے نوشین افتخار کے احترام میں پلکیں بچھا دیں . خواتین کی نوشین افتخار سے جذباتی وابستگی بھی دیدنی تھی... وہ 19 فروری کو ضمنی انتخاب سے قبل انتخابی مہم میں جہاں بھی گئیں ،ان کا بیٹی کے طور پر استقبال کیا گیا......کانواں لٹ گائوں میں ایک ماں جی نے بھی اپنے گھر آمد پر انہیں چادر اوڑھائی... رات جب پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار کی جیت کا اعلان کیا تو معصومانہ انداز میں بولیں: اے ایویں دعوے کردے نیں پئے ، جیتی تو نوشین ای اے"...
10 اپریل کو محترمہ نوشین پر ایک بار پھر ووٹوں کی بارش ہوگئی.....ڈسکہ کے شہریوں نے تو حد کر دی.... سٹی کی دس کی دس وارڈز نے لیگی امیدوار کے حق میں فیصلہ دیکر "مٹھائیوں والے بابا جی"کو بھی "دیس نکالا" دے دیا....اسے ڈسکہ کے عوام کا ظاہرے شاہ کو ووٹ کی صورت خراج عقیدت بھی کہا جا سکتا ہے.....اسی عوامی سپورٹ سے ان کی بیٹی نے باوقار انداز میں پہلا "سیاسی معرکہ" سر کیا ہے......یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ضمنی الیکشن میں سیدہ نوشین سے شکست کے بعد اسجد ملہی کی سید خاندان سے ہارنے کی ہیٹ ٹرک ہو گئی ہے.....
ہائی پروفائل"سید کارڈ"،شیرکا نشان اور بیٹی کا مان اپنی جگہ اہم فیکٹرز مگر یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ ن لیگ نے اپنی اس نشست کا بھرپور دفاع کرکے میدان مارا ہے.....دوسری جانب حکمران جماعت کی ضمنی الیکشن میں شکست کا مطلب ہے کہ اڑھائی سال بعد بھی "گڈگورننس"کے باب میں سب اچھا نہیں.....حکومت کسی کی بھی ہو،مہنگائی کے مارے بیچارے ووٹر پہلے بولیں نہ بولیں، الیکشن ڈے کو "یوم حساب" بناکر بدلہ ضرور لے لیتے ہیں...بہرکیف ڈسکہ کا یہ سنسنی خیز الیکشن ن لیگ کے نام ہوا.....ہار جیت انتخابی عمل کا حصہ ہے.... تحریک انصاف کے شکست خوردہ امیدوار جناب علی اسجد ملہی نے" اچھے مقابلے" کے بعد" اچھی روایت" قائم کرتے ہوئے نومنتخب لیگی ایم این اے نوشین افتخار کو مبارکباد کا پیغام بھجوایا........امید ہے بڑے باپ دادا کی نور چشم بھی اسی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیارے سے نام والے اپنے بھائی علی اسجد کو مٹھائی کا ٹوکرا ضرور بھجوائیں گی.....یہی "سپورٹس مین سپرٹ"ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔