گلشن ِ صحافت کے دو پھول مرجھا گئے
بزرگ و ممتاز صحافی اور انسانی حقوق کے پرجوش علمبردار ابن ِ عبدالرحمن، جو آئی اے رحمن کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے،نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے،وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا تھے وہ ستر برس سے صحافت کے ساتھ وابستہ تھے، زندہ لوگوں میں شاید ہی کوئی دوسرا صحافی ہو جس نے اتنے طویل عرصے تک اس پیشے کے ساتھ مسلسل اپنی وابستگی قائم رکھی ہو۔ اپنی طویل صحافتی زندگی میں وہ سیاست، فلم،ادب، سپورٹس اور انسانی حقوق جیسے موضوعات پر لکھتے رہے،اُن کے آخری مضمون تک اُن کی تحریریں دانش، شگفتگی اور توانائی سے بھرپور ہوتی تھیں اور ابھی چند روز پہلے ہی اُن کا ہفتہ وار کالم روزنامہ ”ڈان“ میں شائع ہوا تھا۔انہوں نے فیض احمد فیض کی ایڈیٹر شپ کے دور میں ”پاکستان ٹائمز“ میں بطور رپورٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا اُس وقت وہ فلم ریویو بھی باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ بعد ازاں وہ اسی اخبار میں چیف ایڈیٹر کے منصب تک پہنچے،اپنی ٹریڈ یونین اور دوسری سرگرمیوں کی وجہ سے اُنہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے اور جیل یاترا بھی کرنی پڑی، لیکن وہ آخر دم تک اپنے ترقی پسند نظریات میں راسخ رہے اور یہی ورثہ چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد بھی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز بطور ورکنگ جرنلسٹ کے کیا تھا اور مختلف جرائد اور بعد ازاں روزناموں میں خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے نوے کے عشرے کے اوائل میں روزنامہ خبریں کا آغاز کیا، جو تیس سال سے باقاعدگی کے ساتھ مختلف شہروں سے شائع ہو رہا ہے۔اس ادارے کے زیر اہتمام کئی دوسرے روزنامے اور جرائد بھی شائع ہوتے ہیں۔چینل فائیو کے نام سے ایک نیوز چینل بھی انہی کی نگرانی میں قائم ہوا،وسیع صحافتی ایمپائر کے قیام تک کا سفر انہوں نے بڑی کامیابی سے مکمل کیا۔
جناب آئی اے رحمن اور جناب ضیا شاہد اپنی زندگی میں اگرچہ بظاہر ایک ہی راستے کے راہی تھے،لیکن دونوں کے سیاسی و صحافتی نظریات اور آدرش مختلف تھے،جن کی تکمیل کے لئے انہوں نے اپنا اپنا طے شدہ طریق ِ کار اختیار کیا،آئی اے رحمن نے زمانہ طالب علمی ہی میں اخبارات و جرائد میں مختلف موضوعات پر لکھنا شروع کر دیا تھا، انہوں نے ماسٹرز ڈگری فزکس میں حاصل کی، لیکن وہ صحافت کو ایسے پیارے ہوئے کہ طبیعات کا مضمون بظاہر اُن کے لئے غیر متعلق ہو گیا۔انہوں نے ادب،آرٹ، سپورٹس اور سیاست پر وقیع تحریریں لکھیں اور اسی عرصے میں انسانی حقوق کے لئے انہوں نے جس کام کا آغاز کیا وہ اُن کی پوری زندگی کو اس طرح محیط ہو گیا کہ باقی تمام سرگرمیاں اس کے سامنے دب کر رہ گئیں اس میدان میں وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے طور پر پہچانے جانے لگے،انہیں کئی ایوارڈوں سے بھی نوازا گیا، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ساتھ وہ آخر دم تک وابستہ رہے،انڈیا پاکستان پیس فورم بھی اُن کی سرگرمیوں کا دوسرا بڑا میدان تھا یہ فورم دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کے لئے کثیر الجہت سرگرمیوں میں مصروف رہا،لیکن اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج تک دونوں ممالک میں ”پیس“ قائم نہیں ہو سکی، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ معمول کے تعلقات بھی ڈھنگ سے قائم نہ ہو سکے،حالانکہ رحمن صاحب کے علاوہ بھی بہت سے ادارے اس گاڑی کو دھکا لگانے کے لئے کوشاں رہے،کئی ایک کو تو حکومتی سرپرستی بھی حاصل رہی،لیکن یہ آج تک تیز رفتاری سے چل نہیں پائی،زیادہ سے زیادہ دو چار سٹیشنوں کا سفر طے کرتی ہے اور پھر اچانک ایک جگہ آ کر رُک جاتی ہے،اب بھی یہ گاڑی کئی سال سے ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی ہے،اِس لئے یہ کہنا چاہئے کہ حکومتوں سمیت دونوں ممالک میں اس مقصد کے لئے قائم سارے ہی ادارے کسی نہ کسی انداز میں ناکام ٹھہرے ہیں۔ کانگرس کے اقتدار کے بعد جب نریندر مودی برسرا قتدار آئے تو اُن کے ساتھ بڑی بڑی امیدیں وابستہ کر لی گئی تھیں اور نہ جانے کس بنیاد پر یہ رائے قائم کر لی گئی تھی کہ پاکستان اُن کے ساتھ آسودہ رہے گا اور تعلقات آگے بڑھیں گے،لیکن جو تھوڑے بہت تعلقات تھے،مودی کے دور میں ان کو بھی ریورس گیئر لگ گیا۔رحمن صاحب اپنی زندگی میں تو بھارت کے ساتھ امن قائم ہوتے نہیں دیکھ سکے اگرچہ اس کے لئے انہوں نے بساط بھر کوشش کی،اب اُن کے جانشینوں اور اُن کے مشن کو لے کر چلنے والوں کی ذمے داری ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔
جناب ضیا شاہد صحافت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی سیاست میں بھی سرگرمِ عمل تھے،آج جب وہ اِس دُنیا میں موجود نہیں رہے تو اُن کے ساتھیوں کو دیکھنا چاہئے کہ اُن کی موجودگی میں بھی ادارے مضبوط ہوئے یا کمزور، اور اگر کمزور ہوئے تو انہیں از سر نو مضبوط و متحد کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ضیا شاہد صرف صحافی نہیں تھے وہ سیاست میں بھی متحرک تھے تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے باقاعدہ رکن رہے، وہ دونوں جماعتوں کی سنٹرل کمیٹی میں بھی شامل تھے لیکن اپنی بے تابی کی وجہ سے ایک ایک کر کے انہوں نے دونوں جماعتوں کو خیر باد کہہ دیا،البتہ آج کل وہ دوبارہ تحریک انصاف کے قریب ہو گئے تھے،اپنی سیاست اور سیاسی پسند و نا پسند کے باوجود انہوں نے اپنے اخبار کی غیر جانبدار پالیسی برقرار رکھی۔اگرچہ اُن کا جھکاؤ عمران حکومت کی جانب نظر آتا رہا تاہم خبروں کی حد تک انہوں نے اپنے اخبارات کو غیر جانبدار رکھا،جن سیاست دانوں کے ساتھ اُن کے قریبی تعلقات رہے ان کے بارے میں انہوں نے تفصیلی مضامین بھی لکھے جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے،بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے، ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جناب آئی اے رحمن اور ضیا شاہد کی مغفرت فرمائے اور دونوں کی فرو گذاشتوں سے درگذر فرما کر اُن کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے۔