انتظامیہ، تحریک لبیک کا ٹاکرا، شہروں میں شہریوں کی خواری!
تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی(مرحوم) کے صاحبزادے مولانا سعد رضوی کی گرفتاری کے خلاف تحریک لبیک کے کارکنوں نے ملک بھر میں احتجاج کیا اور لاہور سمیت کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان اور کئی دوسرے شہروں میں سڑکیں بند کر دیں،اس سے بدترین قسم کے ٹریفک جام ہوئے اور شہریوں کو بے حد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا،حتیٰ کہ ٹریفک میں ایمبولینس گاڑیاں بھی پھنسیں اور کوئی لحاظ نہ کیا گیا، تحریک لبیک کے سربراہ نے فرانس میں توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کیا اور دھرنا دیا تھا،جو ایک معاہدہ کے تحت ختم ہوا کہ ان کے مطالبات پر غور کیا اور قومی اسمبلی تک پہنچایا جائے گا۔یہ دھرنا اس الٹی میٹم کے بعد ختم کیا گیا کہ20 اپریل سے قبل پاکستان میں فرانس کے سفیر کے خلاف کارروائی ہو جائے،ایسا نہ کیا گیا تو اسلام آباد کی طرف مارچ ہو گا اور وہاں دھرنا دیاجائے گا،الٹی میٹم کی تاریخ قریب آ رہی تھی، ڈپٹی کمشنر لاہور نے مولانا سعد رضوی کی نقص امن کے تحت نظر بندی کے احکام جاری کر دیئے۔ مولانا سبزہ زار جا رہے تھے کہ وحدت روڈ پر ان کی گاڑی کو روک کر حراست میں لے لیا گیا۔مولانا کی حراست کی خبر اور سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تحریک لبیک کے کارکن مشتعل ہو گئے اور انہوں نے بڑے بڑے شہروں میں مرکزی شاہراؤں کی گذر گاہیں بند کر دیں اور یوں ٹریفک کی آمدو رفت رُک گئی۔اسلام آباد، کراچی، ملتان اور لاہور میں بدترین ٹریفک جام ہوا،گھروں کو واپس آنے اور کام کاج کے لئے جانے والے پھنس گئے، ایک مخصوص حکمت ِ عملی کے تحت ڈنڈا بردار فورس نے چوراہوں کو بند کیا،اس سے پورے پورے شہروں کی ٹریفک منجمد ہو گئی،اس میں مریض بھی پھنسے اور ایمبولینس تک رُک گئیں۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا،تحریک لبیک کے دھرنے کو ختم کرایا گیا تو یقین دہانیاں بھی کرائی گئی تھیں۔ پھر یہ امرسمجھ سے بالا ہے کہ الٹی میٹم کی مدت ختم ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی مولانا کو حراست میں کیوں لے لیا گیا۔اس عرصہ میں ان کے ساتھ مذاکرات بھی کئے جا سکتے تھے۔دوسری طرف احتجاج کرنے والے اپنے طور پر ایک مقدس فریضہ جان کر ایسا کر رہے تھے، تو ان کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے تھا کہ لوگ پریشان نہ ہوں، جو تکلیف شہریوں کو پہنچی اس کا ازالہ حکومت یا تحریک میں سے کون کر سکتا ہے؟ لہٰذا سب کو عوامی بہبود اور ملکی مفاد کی روشنی میں اقدامات کرنا چاہئیں۔