پی ڈی ایم ماتحت بالخیر، جہانگیر ترین والا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

پی ڈی ایم ماتحت بالخیر، جہانگیر ترین والا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
پی ڈی ایم ماتحت بالخیر، جہانگیر ترین والا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہو گیا، آج  روزہ دار حضرات نے فرمانِ نبیؐ کے مطابق سحری کھائی اور اب افطار کا انتظار ہے۔احادیث اور قرآن کی آیات کی تفسیر کے مطابق تو یہ رحمتوں اور برکتوں کا ماہِ مبارک ہے اس میں جہاں عبادت ہوتی، وہاں خیرات بھی کی جاتی اور یکم رمضان ہی کو صاحب ِ زکوٰۃ کے لئے اپنے مال میں سے اللہ کے لئے ڈھائی فیصد نکالنا بھی لازم ہے۔اس سلسلے میں ہر سال طبیب و حادق اور ڈاکٹر حضرات خوراک کے حوالے سے ہدایات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں خصوصی بات یہ ہے کہ روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اسے سادہ غذا سے رکھنا اور سادگی ہی سے افطار بھی کرنا چاہئے۔ایسی خوراک اور مشروبات سے گریز لازم ہے جن کی وجہ سے جسم کی زکوٰۃ ہی متاثر ہو۔ اگر آپ ایک سال میں ایک مہینہ اپنے غذائی اعضاء کو آرام پہنچا لیں تو باقی گیارہ مہینے اگر تھوڑی بہت بدپرہیزی ہو تو وہ بھی چل جاتی ہے، تاہم ہم ایسے مسلمان ہیں کہ اس مقدس مہینے کو مناتے ہیں، تو بنی اسرائیل کے گمراہ لوگوں کی طرح  زبان سے انکار نہیں کرتے تو اپنے عمل سے ضرور منفی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں، خوراک کا ضیاع اپنی جگہ، سب مل کر منافع خوری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔اس دور میں حکمت عملی والی پالیسیوں کے باعث یوں بھی مہنگائی ہوئی، لیکن ہمارے اللہ کے نیک بندے، بھائی، سر پر ٹوپی اور منہ پر سنت رسولؐ سجا کر مہنگائی کو  مزید شدید کرتے ہیں۔ آج ہر طرف یہی شور ہے کہ منگائی بہت ہو گئی۔ گذارہ مشکل ہے۔ کوئی سوچے  تو؟


وزیراعظم عمران خان نے ابھی دو روز قبل ہی احساس پروگرام کے تحت موبائل لنگر خانوں کا بھی افتتاح کیا وہ حکومت مدینہ کے دعویدار ہیں اور اسی کے تحت ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھوکا نہیں سونا چاہئے۔ان کی پیروی میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے 20ہزار افراد کی سحری اور افطار کا بھی اعلان کیا، ہم تو ان اعلانات اور پروگرام کی تعریف کرتے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ اس سلسلے سے مستفیدکون ہوں گے۔مساجد میں کورونا کی وجہ سے سحری و افطاری کا اہتمام بند ہے۔حکومت کے پاس ایسی کوئی فہرست نہیں، جس کے مطابق ضرورت مندوں تک یہ کھانا پہنچایا جائے۔ یہ درست کہ ان موبائلز سے ایک طبقہ ضرور مستفید ہو گا،لیکن جو خود کمانے والے خود دار اور سفید پوش لوگ ہیں وہ تو آ کر قطار بنانے کے بعد یہ کھانا وصول نہیں کر سکیں گے۔باکل اسی طرح جیسے لنگر خانوں سے نچلے طبقے کے لوگ اور مزدور بھی مستفید ہوتے ہیں،لیکن زیادہ کھانا مفت خوروں اور ہڈ حراموں کے پیٹ میں جاتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہو کہ ایسے مفید پروگرام شروع کرنے سے پہلے مستحقین کی فہرستیں بھی تیار کر لی جائیں۔ یہ سرکاری دفاتر میں درجہ چہارم، گریڈ6 سے10 تک والے اور نجی اداروں میں ملازم چند ہزار تنخواہ والے ہیں۔ ان کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔


یہ سب اپنی جگہ وزیراعظم کی اس سکیم میں کیڑے نکالنے کی ضرورت نہیں،ہمارا تو یہی خیال ہے کہ وزیراعظم اپنے دو سو سیانوں کے ذمہ لگائیں کہ وہ روزگار پیدا کرنے ے لئے ایسی صنعتوں کی تجاویز تیار کر کے دیں کہ عملی اقدامات کے بعد کسی خیراتی گاڑی کی ضرورت نہ رہے۔اس وقت بڑا مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے،اسے ختم کرنا ضروری ہے کہ یہی ہتھیار اپوزیشن کے پاس ہے، نامعلوم وجوہ کی بنا پر اپوزیشن والے بھی گریزاں ہیں، تاہم نام تو لیتے ہیں اس لئے یہ غور طلب ہے۔ وزیراعظم کو ڈسکہ(این اے175) کے ضمنی انتخاب کے نتیجے اور فواد چودھری سمیت شیخ رشید کے بیان پر غور کرنا چاہئے جو یہ مانتے ہیں کہ ڈسکہ میں مسلم لیگ(ن) نہیں جیتی، تحریک انصاف ہاری ہے۔ مفروضہ ہی درست نہیں تو اب ان ترجمانوں کا کیا جواز ہے، جو اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے لئے اب کیڑے نکال رہے ہیں، ان سب کو بھی خوشدلی سے جمہوری ذہن کا ثبوت دیتے ہوئے جیتنے والی کو مبارک دینا چاہئے کہ حالات بہتر ہوں، جمہوریت زبانی نہیں چلتی اس کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوتا ہے۔


جہانگیر ترین وزیراعظم کے دوست اور تحریک انصاف کے کردار میں ان کا بہت حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے خلاف مقدمات کو جس انداز میں لیا ہے وہ عمران خان کے لئے امتحان بن گیا کہ آج تک کرپشن کے خلاف ان کی ساری جدوجہد اور بیانیہ ان کو مجبور کرے گا کہ نرم رویہ اختیار نہ ہو،لیکن جہانگیر ترین کا ساتھ دینے والے اتنے ہیں کہ آئندہ کچھ بھی ہو سکتا ہے،ابھی تک انہوں نے بغاوت نہیں کی اور پارٹی ہی میں ہیں،لیکن یہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی بات ہے، دیکھئے کیا ہوتا ہے۔


پی ڈی ایم کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ اب دو جماعتوں کی1997ء والی پوزیشن بحال کرتی نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی آمنے سامنے ہیں۔بہرحال ڈسکہ نے پھر سے ایک بات ثابت کی کہ مرکزی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بنک سلامت ہے، پی پی کا ووٹ بنک کہاں گیا اسے تلاش کر لیں!

مزید :

رائے -کالم -