پیپلز پارٹی، اے این پی فیصلے پر نظر ثانی، پی ڈی ایم سے رجوع کریں: مولانا فضل الرحمن، اپوزیشن اتحاد کو پارٹی نہ بنائیں: پیپلز پارٹی 

  پیپلز پارٹی، اے این پی فیصلے پر نظر ثانی، پی ڈی ایم سے رجوع کریں: مولانا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا ایک اور موقع دیدیا ہے۔پی ڈی ایم اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اپوزیشن اتحاد سے خود کو علیحدہ کر لیا، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کا استعفیٰ بھیجنا افسوسناک ہے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہماری شکایت  بجا ہے، وضاحت طلب کرنا ہمارا حق ہے۔ ہم پیپلز پارٹی اور ایاین پی کو ایک موقع دے رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے پی ڈی ایم سے رجوع کرنا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم دونوں جماعتوں کو سننے کیلئے تیار ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن اتحاد سے رجوع کرے۔ پی ڈی ایم عہدوں کیلئے جھگڑنے کا فورم نہیں بلکہ عظیم مقصد کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وضاحت سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پی ڈی ایم ایک سنجیدہ فورم ہے۔ دونوں جماعتوں کے سیاسی قد کاٹھ کا تقاضا تھا کہ اپنے کولیگز کو واشگاف انداز سے وضاحت کا جواب دیتے۔ وہ سٹئیرنگ کمیٹی اور پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر سکتے تھے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اتفاق رائے کے فیصلوں کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جس جماعت سے شکایت ہے، اس سے وضاحت طلب کرنا تقاضا تھا۔ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا تعین تحریری طور پراتفاق رائے سے ہوا تھا۔ ہمارے اکثر فیصلے اتفاق رائے سے قوم کے سامنے لائے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم 10 جماعتوں کے اتحاد کا نام ہے اور تمام جماعتوں کی اس میں برابر کی حیثیت ہے۔ جو قائدین اجلاس میں نہیں آ سکے، ان سے ٹیلی فون پر رابطہ ہے۔ اتفاق رائے سے ہم بیان جاری کر رہے ہیں۔دوسری طرف  پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے ملاقات کی ہے دونوں رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے فیصلے کے بعد نئی سیاسی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ہے،مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اور وہ اپنے فیصلے کرسکتی ہے،موجودہ صورت حال کو ذمہ دارانہ انداز میں حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔دونوں رہنماؤں نے پیپلز پارٹی اور اے این پی  کی پریس کانفرنسز اور نوٹس پھاڑنے کے اقدام کی شدید مذمت کی اور کہا کہ نوٹس پھاڑنا کوئی ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ  ہمیں اشتعال انگیزی سے گریز کرنا ہوگا۔نرم لہجے میں جواب دینا ہوگا، ہمیں اس معاملہ کو زمہ دارانہ انداز میں حل کرنا ہوگا۔ جبکہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جو جماعت اتحاد کا اعتماد کھو بیٹھے میری نظر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، وہ وقت دور نہیں جب احتساب کرنیوالوں کا احتساب ہوگا۔شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے اپنے اربوں روپے کھائے گئے، اس پر کمیشن بنا سب کو بری کر دیا، آج احتساب کا واحد مقصد مجرموں کو بچانا اور جرم کی پردہ پوشی کرنا ہے، دوسروں پر جھوٹے الزام لگانا آج کا احتساب ہے، ملکی معیشت تباہ کرنیوالوں کا احتساب ہوگا۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملک کا کیا بنے گا، کیا ملکی مسائل سڑکوں پر حل ہونگے؟ کیا ملک میں کوئی حکومت ہے؟ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے کیا کر رہی ہے؟ آج پاکستان کامسئلہ مہنگائی ہے، گیس سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے، بجلی کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں، 2018 کا الیکشن چوری ہوا اور جو حکومت بنی وہ ناکام ہوچکی ہے۔
مولانا فضل الرحمن

  

لاہور کراچی(نمائندہ خصوصی، نیوز ایجنسیاں) پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے اعلان لاتعلقی کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے تمام عہدوں سے استعفے فضل الرحمان کی رہائش گاہ پرپہنچا دیئے۔، سیکرٹری جنرل نیئر بخاری، شیری رحمان، راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ کے استعفے لے کر گئے۔دوسری طرف پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ (ن) لیگ  بے شک تلخ باتیں کرتے رہے ان کا احترام کرتے ہیں، شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں پیپلز پارٹی جواب دیں شوکاز جاری کیا ہے، مولانا نے فرمایا ہے کہ شاہد خاقان کے جواب کے لئے پی ڈی ایم میں آجانا چاہیے تھا، اگر خط اور شوکاز میڈیا سے ملے تو جواب بھی میڈیا سے ملنا چاہیے، مولانا ہم سے وضاحت طلب کررہے ہیں آپ ساری تحریکوں کا حصہ رہے ہیں میاں صاحب اے آر ڈی کو بغیر بتائے باہر چلے گئے تھے کوئی شوکاز نہیں جاری کیا، زبیر صاحب دو مرتبہ آرمی چیف سے ملے،مولانا نے انتہائی نامناسب بات کی کہ باپ کو باپ نہیں بنانا چاہیے، میں توقع کررہا ہوں آپ اپنے الفاظ واپس لیں، پنجاب حکومت کی نا اہلی کا ثبوت ہے کہ ملک بھر میں چوک بند ہیں، پہلے انھوں نے ایک جماعت کے ساتھ معاہدہ کیا پھر انکار کردیا، احتجاج کے ہم حق میں ہیں لیکن تشدد کے حق میں نہیں ہیں۔ان خیالات کااظہارانہوں نے لاہور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، پچھلے مالی سال میں حکومت کا گروتھ دو فیصد ہے، ایک مہینے کا ٹریڈ خسارہ تین ارب ڈالر کا ہے، کاٹن، چینی، گندم امپورٹ کررہے ہیں پالیسی کیا ہے آپ کی۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک جو بینکوں کا بینک ہے عوامی فورم کی دسترس سے باہر نکالا جارہا ہے، وہ عالمی اداروں کی مرضی سے کام کرے گا۔ہمارے دور میں حفیظ شیخ رہے اور آئی ایم ایف بھی تھا لوگوں کی تنخواہیں ڈیڑھ سو فیصد بڑھائی۔ پاکستان کی مالی خودمختاری پر سمجھوتہ ہے، یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر چلے گئے، ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے،کشمیر ہماری شہہ رگ ہے،پی پی پی کا کشمیریوں سے تین نسلوں کا رشتہ ہے،سلیکٹڈ کہتا تھا مودی جیت جائے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا، شاید یہی چاہتے تھے یہ۔انہوں نے کہاکہ  پنجاب حکومت کی نا اہلی کا ثبوت ہے کہ ملک بھر میں چوک بند ہیں، پہلے انھوں نے ایک جماعت کے ساتھ معاہدہ کیا پھر انکار کردیا۔ احتجاج کے ہم حق میں ہیں لیکن تشدد کے حق میں نہیں ہیں۔ پی پی پی کی سی ای سی کی میٹنگ میں ملکی معیشت اور عوامی مشکلات کا ذکر کیا گیا۔پی ٹی آئی کے پچھلے آئی ایم ایف کے معاہدے کم نہ تھے کہ ہزار ارب کے نئے معاہدے کرلئے ہیں، ہم اے این پی کے ساتھ ہیں، چھوٹی بڑئی  کوئی جماعت نہیں ہوتی ۔پیپلز پارٹی اس ملک کی بڑی جماعت ہے، ہم سب کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، ہماری حکومت دنیا کی واحد بے حس حکومت ہے جو کورونا ویکسین امپورٹ نہیں کررہی،اس ملک کے وزیر صحت وزیر اعظم ہیں۔ بتائیں دس ڈالر کی ویکسین ہی نتالیس ڈالر کی کیوں مل رہی ہے، سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے استعفیٰ دے دیا ہے گروپ میں رہے نہ رہے، جن صاحب نے گروپ سے نکالا ہے لگتا ہے مسلم لیگ لندن کو ہمیں گروپ سے نکالنے کی کافی جلدی ہے۔انہوں نے کہاکہ جہانگیر ترین سے ہمارے کوئی رابطے نہیں ہیں۔(ن) لیگ تلخ باتیں کرتے رہے ان کا احترام کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں پیپلز پارٹی جواب دیں شوکاز جاری کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ شاہد خاقان کے جواب کے لئے پی ڈی ایم میں آجانا چاہیے تھا، اگر خط اور شوکاز میڈیا سے ملے تو جواب بھی میڈیا سے ملنا چاہیے۔ تلخ باتیں دونوں طرف سے ہوئی ہیں۔ مولانا ہم سے وضاحت طلب کررہے ہیں آپ ساری تحریکوں کا حصہ رہے ہیں میاں صاحب اے آر ڈی کو بغیر بتائے باہر چلے گئے تھے کوئی شوکاز نہیں جاری کیا، زبیر صاحب دو مرتبہ آرمی چیف سے ملے،مولانا نے انتہائی نامناسب بات کی کہ باپ کو باپ نہیں بنانا چاہیے، میں توقع کررہا ہوں آپ اپنے الفاظ واپس لیں، ہم نے پی ڈی ایم بنایا تھا اس کا فورم تشکیل دیا تھا، اس کا چارٹر چھبیس پوائنٹس پر مشتمل تھا، فیصلہ ہوا تھا اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگا، پیپلز پارٹی ہر معاہدے کے ساتھ کھڑی ہے، ہم اس کے ایک ایک لفظ کا پہرا دے رہے ہیں۔ کہا گیا سب کے ساتھ کسانوں، تاجروں کے ساتھ رابطے کئے جائے، کسی ایک سے بھی رابطہ نہ کیا گیا، ہمیں کہا گیا عدم اعتماد کیسے لائیں ہمارے پاس نمبرز نہیں ہیں، ہم نے ایک سو بہتر ووٹ لئے اس سے وزیر اعظم بنتا ہے یا گرتا ہے،ہمیں کہا گیا استعفے نہیں دینے تو لانگ مارچ کا کیا فائدہ، ہم نے گزارش کی جب تک یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینٹ کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس کو سینئر سمجھے، کہتے ہیں ہم نے حکومت سے ووٹ لیئے ہیں ہم نے کہاں حکومت سے ووٹ لئے ہیں،   پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی  نے کہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان مفاہمت چاہتے ہیں تو پہلے بتائیں کہ کس کے کہنے پر لانگ مارچ کو استعفوں سے نتھی کیا،مولانا   آگاہ کریں کہ پی ڈی ایم کے ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے، مولانا پی ڈی ایم نام کے سیاسی اتحاد کو سیاسی پارٹی نہ بنائیں،ن لیگ ہر پارلیمانی عہدہ اپنے پاس رکھ کر دوسری سیاسی جماعتوں پر اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرسکتی،یہ کیسی منطق ہے کہ پی پی کے استعفے حلال اور ن لیگ کے استعفے حرام ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا مولانا فضل الرحمان 2002 کی اسمبلی میں پی پی کی اکثریت کے باوجود خود اپوزیشن لیڈر بن گئے تھے،اگر مولانا فضل الرحمان مفاہمت چاہتے ہیں تو پہلے بتائیں کہ کس کے کہنے پر لانگ مارچ کو استعفوں سے نتھی کیا،مولانا فضل الرحمان آگاہ کریں کہ پی ڈی ایم کے ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا پی ڈی ایم نام کے سیاسی اتحاد کو سیاسی پارٹی نہ بنائیں، سیاسی جماعتوں کے ضوابط سیاسی اتحاد پر لاگو نہیں ہوتے،تعجب ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے علم میں نہیں کہ پی پی اور اے این پی کے خلاف شوکاز نوٹس کو جاری کرنے کے بعد لیک کیا گیا،اکثریتی جماعت کا حق ہے کہ وہ ایوان بالا و زیریں میں اپنا اپوزیشن لیڈر لائے پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم عہدوں پر تحریری استعفے جمع کرائے جانے کے بعد پیپلزپارٹی اور اے این پی نمائندوں کو پی ڈی ایم کے واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا گیا،گروپ ایڈمن احسن اقبال نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو گروپ سے ریمو کر دیا، پیپلزپارٹی اور اے این پی نمائندوں کو پی ڈی ایم کیواٹس ایپ گروپ سے نکال دیا گیا ہے، یوسف گیلانی، راجہ پرویز،شیری رحمان، قمر زمان کائرہ کو گروپ سے نکالا گیا۔اس کے علاوہ اے این پی کے میاں افتخار کو بھی گروپ سے نکالا گیا، گروپ ایڈمن احسن اقبال نے چاروں افراد کو گروپ سے نکال دیا۔
پیپلز پارٹی

مزید :

صفحہ اول -