پب جی گیم کے جنون میں مبتلا نوجوان ذہنی، نفسیاتی امراض کا شکار ہونے لگے
لاہور(رپورٹ، یونس باٹھ) انٹر نیٹ اور ٹیکنا لوجی کے اس دور جدید میں آئے دن نئے سے ویڈیو گیم اور مخرب اخلاق ایپلی کیشن لونچ ہوتے رہتے ہیں جن کے ذریعہ نو جوان اور بچے اپنے وقت کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجائے تاریک کرتے ہوئے نظر آر ہے ہیں ا یسا ہی ایک گیم ہے پب جی جو اس وقت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے بچے ہوں کہ بڑے سبھی اس کے جنون میں مبتلا نظر آرہے ہیں جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ دن ہو کہ رات شام ہو کہ سحر سفر ہو کہ گھر ہو یا باہر بس بپ جی ہی کی دنیا میں مست و مگن رہتا ہے اور اسی کو اپنی دنیا سمجھتا ہے،گیم ہندوستان میں سب سے زیادہ کھیلی جاتی ہے دسمبر2017میں آئیر لینڈ کے گیم ڈیزائنر برینڈن گرین نے یہ گیم متعارف کرائی2018میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی اس گیم میں 100 کھلاڑی ہوتے ہیں جو اپنے مشن کو مکمل کرنے کیلئے لوٹ مار کرکے اسلحہ اور دیگر اشیاء حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے ایک جزیرے میں یہ ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،آخر میں جو ٹیم بچ جاتی ہے وہ اس گیم کی فاتح کہلاتی ہے مکمل گیم آخر تک کھیلنے والے کو فرضی چکن ڈنر کا انعام بھی ملتا ہے اس سے پہلے سپر ماریو اور بلیو وہیل جیسے گیمز بھی اپنے جادو کا اثر دکھا چکے ہیں پب جی گیم کے نقصانات میں وقت کی بربادی کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونا بھی ہے عالمی ادارہ صحت نے ویڈیو گیمز کی لت کو با قاعدہ ذہنی بیماری تسلیم کیا ہے چنانچہ ملک بھر میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں پب جی کھیلنے والے شخص کی دورہ دل پڑنے سے موت ہوگئی یا پب جی گیم کی لت میں مبتلا شخص نے خود کو یادوسروں کو گولیاں مار کر قتل کیا ہے پب جی گیم کے نقصانات بارے نفسیات کے ایک ڈاکٹر سفیان کا کہنا ہے کہ موبائل یاکمپیوٹر کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیم کھیلنے والوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کر دیتی ہے اور اسکے علاوہ اس طرح کی ویڈیو گیم کھیلنے سے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو جاتا ہے، مزید گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں میں تکلیف لاحق ہو جاتی ہیے۔مزید کھلتے وقت آنکھوں کی حرکت تیز ہوجانے کی وجہ ستے آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے۔اتنا ہی نہیں گیم کھیلنے والوں میں خود اعتمادی کی کمی کیساتھ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں بپ جی گیم میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل کرکے انکی املاک تباہ کرکے ناحق انہیں زدوکوب کرکے لطف اٹھایا جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ گیم تک ہی محدود نہیں رہتا ان گیمز کے نوجوان اور بچے نشے کی طرح عادی ہو جاتے ہیں اور اور جرائم کے نئے طریقے اور ترکیبیں سیکھ لیتے ہیں یہ گیمز زہنوں میں تشدد مار دھاڑ اور لڑنے کے نئے ہنر سیکھ لیتے ہیں جس کی ہمارے سامنے کہیں مثالین موجود ہیں گزشتہ سال اس ہنر کو ایک 19سالہ لڑکے نے اپنے ہی گھر والوں پر آزمایا اور اپنے ماں باپ اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا پولیس کے مطابق یہ لڑکا ویڈیو گیم پب جی کا عادی ہو گیا تھا سورج نام کے لڑکے نے مہرولی میں ایک روم کرائے پر لیا تھا اور سکول کم اور روم میں بیٹھ کر ویڈیو گیمز کیساتھ وقت گزارتا تھا۔
پب جی گیم