برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اردو زبان کی تدریس کا انتظام موجود ہے
اردو زبان کو شروع ہی سے یہ اہمیت حاصل رہی کہ اسے نہ صرف برصغیر پاک وہند (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش)میں عوامی سطح پر پذیرائی ملی بلکہ اسے دوسرے ملکوں میں بھی نہ صرف بولا اور لکھا جاتا ہے۔بلکہ اس میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ان میں چند ممالک کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔
ایران
۱۹۵۶ء میں دانشگاہ تہران میں شعبہ اردو عمل میں آیا۔ تہران یونیورسٹی میں ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر محمد کیو مرثی، ڈاکٹر وفا یزداں منش شعبہ اردو سے سے منسلک ہیں۔تحقیقی اور علمی و تدریسی حوالے سے اس شعبہ کی خدمات گرانقدر ہیں۔
ترکی
استنبول یونیورسٹی، انقرہ یونیورسٹی،سلجوق یونویرسٹی قونیہ،میں تدریس اردو کا کام جاری ہے۔ شوکت بولو، ڈاکٹرخاقان قیوم جو،درمش بلغور،ڈاکٹر نوریے بلک،ڈاکٹر نہاد تارلان، ڈاکٹر محمد اوندر، آسمان بیلن،ڈاکٹر سلمیٰ بینلے، ڈاکٹر گلیسرین ہالی جی،ڈاکٹر خلیل طوقار،ڈاکٹر جلال سوئیدان،ڈاکٹر آرزو سورن اور خدیجہ گورگون کے نام قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،ڈاکٹر یحییٰ بختیار اشرف، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر سعادت سعید بھی یہاں اردو کے حوالے سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔اکتوبر ۲۰۱۵ء میں استنبول یونیورسٹی میں ڈاکٹر خلیل طوقار نے اردو کی تدریس کی سوسالہ کامیابی کے موقع پر ایک انٹرنیشنل سیمپوزیم کا انعقاد بھی کرایا جس میں پوری اردو دنیا سے اسکالرز نے شرکت کی اور اپنے اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔
روس
اردو کے حوالے سے تحقیق وتراجم میں پروفیسر جی فلیمینوف، پروفیسر سوخوچوف، پروفیسر زوگراف، پروفیسر مریم سلگانیک سوورووا، ڈاکٹر کبریک شٹس،برانیکوف،ڈاکٹر نتالیہ پریگارینا، نکولیا گلبوف، لدمیلاواسلیوا کے نام قابل ذکر ہیں۔لدمیلا ماسکو ریڈیو پر اردو پروگرام نشر کرتی رہیں۔ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں اردو پڑھاتی رہیں۔
جرمنی
جرمنی میں برلن،ہیمبرگ،اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اردو کی تدریس کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے۔ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں بھی اردو کی تدریس کے لیے اقبال چئیر موجود ہے۔ اردو زبان وادب سے وابستہ پروفیسروں میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر این میری شمل نے اقبال کی کتابوں کے جرمنی میں تراجم کیے۔ڈاکٹر ونٹرنز، ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ،ارسلا روتھن الیگزینڈر باؤسانی،،رولف اتالیاندر، ڈاکٹر ہیلموٹ نیسپتال اردو کے لیے کام کرتے رہے۔ہمارے دوست جناب سرورغزالی برلن میں اردو تعلیم وتدریس سے وابستہ ہیں۔
جاپان
مولانا برکت اللہ،پروفیسر عبدالسلام فضلی، پروفیسر سوزوکی،سادا، پروفیسر جین،پروفیسر ہیروشی کان کاگایا، پروفیسر ہماگچی،تاکا میتسو متسومورا،پروفیسر ہیرو جی کتاؤ،ایس سہارائی، مامیا کین ساکو،،انا ہارا، پروفیسر کورویاناگی، ماسا ہیکو ہاتسنو، سویا مانے یاسروغیرہ اردو کی تدریس اور زبان وادب سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد اورڈاکٹر سہیل عباس خان بھی یہاں اردو کی تدریس سے منسلک رہے۔
چین
چین میں بھی اردو کی تدریس کا کام جاری ہے اور چینیوں کی ایک بڑی تعداد اردو کی تدریس میں مصروف ہے۔مختلف ا وقات میں ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر شفیق انجم، ڈاکٹر ظفر احمد اردو کے حوالے سے چین میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
مصر
مصر کی چار یونیورسٹیوں میں اردو کی تدریس جاری ہے۔قاہرہ یونیورسٹی میں ۱۹۴۵ء سے مختلف پاکستانی اور بنگالی اساتذہ اردو پڑھاتے رہے۔ڈاکٹر سمیر عبدالحمید، شیخ صاوی علی شعلان، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، اسامہ شیلبی، تغرید، ہند عبدالحلیم اردو کی تدریس میں مصروف ہیں۔
برطانیہ
برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اردو زبان کی تدریس کا انتظام موجود ہے۔ بحیثیت اختیاری زبان کے اردو کو پڑھایاجاتا ہے۔برطانیہ میں ۱۹۳۰ء میں باقاعدہ اردو کا شعبہ قائم کیا گیا۔اور اردو کی تدریس کے حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں میں کام کیا گیا۔ لندن، مانچسٹر، شیفلڈ، برمنگھم، بریڈ فورڈ جیسے شہروں میں اردو کی تعلیم کا رواج ہے۔ لندن یونیورسٹی کا اسکول آگ اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز اہمیت کا حامل ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں 1959 سے، کیمبرج یونیورسٹی میں 1832 سے،،رائل ملٹری اکیڈمی میں 1861سے، ایڈن برگ یونیورسٹی اسکاٹ لینڈ، کیمبرج یونیورسٹی، برمنگھم یونیورسٹی میں اردو کی تدریس کا انتظام ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی میں علی شیراز کا نام اردو کی تدریس کے حوالے سے اہم ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اردو کے استاد اور ادیبوں میں پروفیسر ڈبلیو رائٹ، رالف رسل(پیدائش ۱۹۱۸ء)،ڈیوڈ میتھیو ز،رضا علی عابدی، یشب تمنا، ماہ جبیں غزل انصاری،جاوید اختر چوہدری، سلطانہ مہر، تنویر اختر، مقصود الٰہی شیخ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں اردو زبان وادب کی ترقی اور ترویج کے لیے جن کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بی بی سی کی اردو سروس سے بے شمار پاکستانی ادیب منسلک رہے۔رضا علی عابدی ایک عرصہ اس ادارے میں اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے کام کرتے رہے۔
فرانس
فرانس میں پیرس یونیورسٹی میں مشرقی زبانوں کے حوالے سے سترھویں صدی میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم ہوا۔ جہاں گارسیں دتاسی نے بھی پڑھا اور پھر وہیں کام بطور پروفیسر (1838)کام بھی کرنے لگے۔وہ ایک ایسا فرانسیسی ہے جس نے ابتدا میں اردو کی تاریخ پر کام کیا اور فرانسیسی میں اردو کی تاریخ رقم کی۔پیرس کے مدرسہ السنہ میں اردو پڑھانے والے الین دزولیئرکا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ فکشن نگاروں میں فرانس میں مقیم سرفراز بیگ کا نام بھی شامل ہے۔
امریکہ
ڈاکٹر کارلو کپولا، ڈاکٹر فرانسس پریچت نے اردو کے لیے کام کیا۔وائس آف امریکہ کے شعبہئ اردو نے اردو کو پورے امریکہ میں متعارف کرایا۔مستشرق ڈاکٹر برائن سلور نہایت اچھی اردو بولتے ہیں۔ستیہ پال آنند ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں۔جو کہ اردو شاعری اور نثر کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔
ہالینڈ
ہالینڈ میں بھی پاکستانی کثیر تعداد میں موجود ہیں اسی لیے وہاں بھی اردو کو ایک اضافی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
جنوبی افریقہ
جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ) میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے ہر مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ ہے جہاں اردو پڑھائی جاتی ہے۔
کنیڈا
ڈاکٹر کینتھ برائٹ، ڈاکٹر ایڈمنر، ڈاکٹر بارکر نے اردو کو ہالینڈ میں متعارف کرایا۔بے شمار کتابوں کے مصنف ڈاکٹر تقی عابدی طویل وعرصے سے کنیڈا میں اردو زبان وادب کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ناروے
ناروے میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔یہاں اردو زبان بولنے اور لکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
اٹلی
اٹلی میں اردو زبان وادب کا سلسلہ انیسویں صدی سے نظر آتا ہے۔ اورینٹل یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ نیپلز یورپ میں علوم شرقیہ کے حوالے سے ایک قدیم ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔
پراگ
ڈاکٹر جان مارک(۱۹۳۱ء) اردو فارسی اور ہندی زبان وادب کی تعلیم حاصل کرکے پراگ میں اردو کی تدریس میں مصروف رہے۔
سویڈن
سویڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہوم میں بڑی تعداد میں پاکستانی موجود ہیں وہاں دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی پڑھایا جاتا ہے۔
سعودی عرب
سعودی عرب کے اکثر علاقوں میں اردو بولنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت،شام اور سعودی عرب میں لاکھوں لوگ اردو بولنے والے موجود ہیں۔ڈاکٹر فاروق زبیر ایک عرب ہیں مگر اردو کے قادرالکلام شاعر ہیں۔
تاشقند کی وسط ایشیائی یونیورسٹی میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ ازبکستان میں ازبک محقق انصارالدین ابراہیم کا مرتب کردہ اردو ازبک مشترک الفط کا لغت اہمیت کا حامل ہے۔خال مرزا ئف تاش مرزاکا نام بھی اس ح والے سے اہم ہے۔ اطالیہ، سویڈن، ہالینڈ، پرتگال، آسٹریا، چیک،سوئٹزر لینڈ، پولینڈ، بلجیم، ماریشس، کینیا، صومالیہ اور نیروبی میں بھی کہیں نہ کہیں اردو کی تدریس کا سلسلہ موجود ہے۔ چیدہ چیدہ پاکستانیوں میں سے درج ذیل اساتذہ اور ادیب مختلف ممالک میں اردو کے فروغ اور ترویج کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر سعید اختر درانی، محمود ہاشمی، انعام عزیز، بانو ارشد، محسنہ جیلانی، جتندر بلو،ساقی فاروقی (لندن)،صفی حسن(انگلینڈ)، بھی اردو کے حوالے سے بیرون ملک خدمات انجام دیتے رہے۔ مختلف ادوار میں اردو زبان وادب سے تعلق رکھنے والوں میں احمد مشتاق، ریحانہ قمر (امریکہ)ڈاکٹر گیان چند،(کیلی فورنیا)، افخار نسیم(شکاگو)، رضیہ فصیح احمد(شکاگو)ثریا شہاب (جرمنی)، مختار علی(سعودی عرب)، اور صدف مرزا (ڈنمارک) کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
٭٭٭