اب جمہوری انداز ہی بہتری لائے گا!

 اب جمہوری انداز ہی بہتری لائے گا!
 اب جمہوری انداز ہی بہتری لائے گا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی صدراور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اب وزیراعظم بن گئے،وہ متحدہ اپوزیشن کے امیدوار کے طورپر منتخب ہوئے،جس کی کوشش کے باعث سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہو گئی۔یوں پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی ایک ریکارڈ بن گیا کہ ایک وزیراعظم ایوان کی حمایت سے محرم ہو کر اقتدار سے الگ ہوا۔یہ علیحدہ امر اور حالات ہیں کہ اس سلسلے میں کیسے کیسے مقام آئے اور کیا کیا ہوا،حتیٰ کہ پارلیمانی تاریخ بھی نئی رقم ہوئی،جمہوریت کے نام پر ایوان میں جو ہوا،اسے پورے پاکستان ہی نہیں دنیا نے بھی دیکھا کہ کپتان اور ان کے کھلاڑیوں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ ہی نہیں کیا،بلکہ نہ صرف اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا،بلکہ فوراً بعد تحریک بھی شروع کر دی، آج (بدھ) رات آغاز پشاور سے کیا گیا۔
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر جو مسائل اور خطرات  درپیش ہیں،وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو کوئی بھی اکیلا حل نہیں کر سکتا،ماضی سے اب تک میں نے ہمیشہ یہی سنا کہ قومی وحدت ہی ان مسائل کا حل ہے،لیکن دُکھ یہ ہے کہ ایسا کبھی ہوا نہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو قومی وحدت اور یگانگت کے قائل اور جمہوریت کے گن گاتے ہیں،لیکن اقتدار ملتے ہی ان کے خیالات میں تبدیلی آجاتی ہے،اور یہ جمہوری اقدار مکمل طور پر اپنا لینے کی بجائے، اپنے اقتدار کو دوام دینے کے اقدامات شروع کر دیتے ہیں،جانے والوں پر ہتھ ہولا رکھنا ہمارا شیوہ ہے،لیکن حالات حاضرہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ کپتان نے سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل ہی بنا ڈالا اور ایک وکٹ گر گئی کے استعارے سے شروع ہو کر ایک بال سے تین وکٹیں گرانے کی بات پر آ گئے اور پھر نوبت یہ آئی کہ آخری بال تک لڑوں گا،لیکن یہ نوبت نہ آئی اور کپتان فیلڈ چھوڑ کر بنی گالا روانہ ہو گئے۔
فاسٹ باؤلر، آل راؤنڈر اور کپتان کو جاننے والوں کو علم ہے کہ وہ ابتدا ہی سے اَنا پرست رہے،اس حوالے سے ان کھلاڑیوں سے پوچھا جا سکتا ہے جو اُن کی قیادت میں فیلڈ کرتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کی یہ عادت بھی اسی کھیل کے دور کی ہے کہ جو ان کو پسند آ جائے وہ سب پر بھاری اور اسے چھوڑتے نہیں تھے اس کی ایک مثال منصور احمد کی ہے،جو مقابلے سے باہر ڈومیسٹک کرکٹ میں تو خوبصورت اور اچھا کھلاڑی تھا، لیکن بدقسمتی اس کی یہ تھی کہ جب بھی اسے کپتان نے موقع دیا، وہ فیل ہو گیا۔عمران خان اسے بار بار کھلاتے رہے اور وہ ہر بار ناکام ہوتا رہا، کپتان عمران خان نے یہی عادت سیاست میں بھی اپنائی، عوام ان کی پسند جانتے ہیں کہ کون کون کیا کیا تھا اور کئی بلنڈروں کے باوجود بھی پیارا ہی رہا، سب سے بڑی مثال عثمان بزدار کی ہے کہ جن کی وجہ سے تحریک انصاف میں گروہ بندی بھی قبول کر لی،لیکن ان کو ہٹایا نہیں اور اگر ان سے قربانی لی بھی تو اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے چودھری پرویز الٰہی کو امیدوار بنا کر ان سے استعفیٰ لے لیا۔اگرچہ اس کے باوجود اقتدار نہ بچا۔
جہاں تک عمران خان صاحب کے رویے کا تعلق ہے تو وہ بھی اسی خواہش اور امید کا شکار رہے کہ ان کے پاس کلی اختیار ہوں تو وہ مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیں، اس حوالے سے کرپشن کے خلاف ان کا بیانیہ مقبول بھی بہت ہوا،لیکن ہمارے ملکی نظام کے باعث یہ ناکام ہو گیا۔ میں نے ان سطور میں بار بار گذارش کی، ریاست، حکمرانی اور پارلیمینٹ کو اس بیانیے سے الگ رکھیں،احتساب کا سلسلہ قانونی اداروں کے ذمہ رہنے دیں۔ یہ ادارے ہمیشہ سے اقتدار والوں کا ر خ دیکھتے اور اپنا عمل متعین کرتے ہیں۔گذشتہ دورِ اقتدار میں نیب کا رویہ بھی اس کا بین ثبوت ہے،لیکن کپتان نے اپنی اَنا کے مقابلے میں کچھ نہ سوچا اور پارلیمانی عمل معطل رہا کہ وہ اپوزیشن سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر ہی میں انہوں نے ”میں نہیں چھوڑوں گا“والا رویہ اپنا لیا، جو آخر وقت تک رہا اور نتیجہ صاف ظاہر ہے، اب انہوں نے ایک اور بڑا فیصلہ کر کے صرف قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کیا۔ اگرچہ ابھی تک یہ سامنے نہیں آئے، ویسے بھی سب اراکین اس کے حق میں نہیں،اور جب ان استعفوں کی سکروٹنی ہو گی تو یہ بھی سامنے آ جائے گا، ماضی میں کنٹینر سیاست کے دوران بھی ایسا کیا گیا، اس وقت کے سپیکر نے حکومت کی منشا  کے مطابق یہ استعفے منظور نہ کئے اور اپنے پاس رکھے جب وہ حضرات واپس آ گئے تو ان کی نشستیں بحال ہو گئیں اور ان سب نے سابقہ واجبات بھی وصول کر لئے تھے۔بہرحال اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی کپتان کا رویہ ویسا ہی ہے،میں نہیں تو کوئی بھی نہیں،حالانکہ اگر تحریک انصاف ایوان میں رہے تو بہت بڑی حزبِ اختلاف ہے،جو حزبِ اقتدار کو بہت ٹف ٹائم دینے کی اہل ہے،تاہم ان کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ عوام کے پاس جائیں جو نئی حکومت کو الٹا دیں، اس کو نئے انتخابات پر مجبور کر دیں اور ان کو بطور تحریک انصاف دوتہائی اکثریت سے اقتدار واپس مل جائے تو وہ اپنی حسرتیں پوری کر لیں،لیکن ان کے اس عمل کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مستقبل مشکل اور نازک نظر  آتا ہے۔
تحریک انصاف کے سیاست میں آنے سے قبل اس ملک میں آمریت بھی رہی اور جمہوریت بھی آئی، اختلافات اور محاذ آرائی بھی ہوئی،لیکن نوابزادہ نصر اللہ اور ان کے ہم عصر سیاست دان حضرات کی وجہ سے بھی بات اختلافات سے بڑھ کر دشمنی تک نہیں پہنچی،بلکہ نوابزادہ نصر اللہ(مرحوم) تو اتحاد بنانے کے اہل تھے اور ماضی کے متحارب فریقوں کو حلیف بنا لیتے تھے، سیاست میں اتنی سخت گیری نہیں ہوتی،ہر کوئی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے، دوسروں کو بھی جینے کا حق دیتا ہے،لیکن آج جو صورت حال ہے وہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک کے باہر بھی سنگین ہے اور بات دشمنی کی حد تک ہے۔یہ ہمارے ملک کے لئے کسی صورت بہتر نہیں،اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اور بعد میں جو کچھ ہمارے ملک میں ہوا اور ہو رہا ہے،اس پر میں تو لکھنے سے رہا،لیکن اب تو ہر شے سامنے آتی جا رہی ہے۔پاک فوج کے فارمیشن کمانڈروں کی کانفرنس کے اعلامیہ سے بھی تاثر ابھرتا ہے،یوں بھی ایسی کانفرنس بہت دیر بعد ہوئی،اور اعلامیہ معنی خیز ہے،جبکہ آئی ایس پی آر کی طرف سے بی بی سی کی رپورٹ کی پُرزور تردید اور پھر حالیہ اعلامیہ میں یہ عزم کہ مسلح افواج کے خلاف ہرزہ سرائی برداشت نہیں ہو گی۔بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ یوں بھی ہفتے کی شب پارلیمان اور وزیراعظم ہاؤس کی ظاہر اور چھپی کہانیاں بہت کچھ سنا رہی ہیں۔
میں جو قومی مصالحت کا قائل ہوں، اب پھر یہی خواہش رکھتا ہوں۔ موجودہ حکومت متعدد سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے،اللہ کرے جوش پر ہوش غالب آئے اور قومی مسائل پر قومی مصالحت وسیع تر ہو جائے،موجودہ برسر اقتدار اتحاد سے گذارش ہے کہ جماعتی اور ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کر دے۔

مزید :

رائے -کالم -