بحران کیسے ختم ہو گا؟ 

 بحران کیسے ختم ہو گا؟ 
 بحران کیسے ختم ہو گا؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ایک عام خیال یہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں سیاسی سطح پر ایک ٹھہراؤ آجائے گا مگر یہ توقع پوری نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف نے اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کرکے صورتحال کو گھمبیر بنا دیا ہے صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان نے مختلف شہروں میں جلسے کرکے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جو روایت ڈالی ہے اس کی وجہ سے ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ جس میں انتخابات ناگزیر دکھائی دیتے ہیں اگرچہ آئینی طور پر نئے انتخابات کے لئے ڈیڑھ سال کا عرصہ موجود ہے مگر اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد کا نا ہونا اور سڑکوں پر احتجاج کا جاری رہنا دو ایسے عوامل ہیں جو شاید اس نظام کو چلنے نہ دیں ایک اور رجحان  جس نے سیاسی ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ عدم برداشت کا رویہ ہے۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جو واقعہ پیش آیا اور جس میں تین عوامی نمائندوں نے ایک بزرگ کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا کہ وہ ان کے حوالے سے جملے بازی کر رہا تھا اس صورتحال کو تشدد کے بغیر بھی نمٹایا جا سکتا تھا مگر چونکہ عدم برداشت بہت زیادہ ہے اس لئے معاملہ مارکٹائی تک پہنچا سوشل میڈیا پر بھی ایک دوسرے کے خلاف ہر قسم کی نازیبا گفتگو اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے ساری باتیں سیاسی قوتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہئیں مگر ایسا ہے نہیں خود سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنی گفتگو اور اپنے طرز عمل سے اس عدم برداشت کو بڑھا رہے ہیں۔
ادھر فوج کے ترجمان نے فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس کے بعد یہ اعلامیہ جاری کیا ہے کہ فوج جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑی ہے اور اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔اس کانفرنس میں بھی  سوشل میڈیا کے ذریعے عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دینے والے عوامل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے پاک فوج کے بارے میں بے بنیاد افواہ پھیلانے والوں کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ قومی سلامتی اور قومی دفاع میں پاکستان کی مسلح افواج کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑے گی۔حقیقت یہ ہے کہ عسکری اداروں نے اپنے آپ کو سیاست سے دور کر رکھا ہے اور ان کی طرف سے بارہا یہ کہا گیا ہے کہ سیاست سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے اور افواج پاکستان آئینی اداروں کے ساتھ کھڑی ہیں اور اس سلسلے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے۔اگر سیاست کے میدان میں سیاسی قوتیں اپنے مسائل حل نہیں کر پاتیں اور ریاستی اداروں کی طرف دیکھتی ہیں تو یہ جمہوریت اور سیاست کے لئے ایک منفی عمل ہے۔ گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا اسے پوری قوم نے دیکھا تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی نے آئینی حدود کا خیال نہیں رکھا۔بعد از خرابی بسیار جب ووٹنگ کرانے کا مرحلہ آیا تو ایک غیر آئینی رولنگ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا جس کا سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا اور پانچ دن کی مسلسل سماعت کے بعد ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر تحریک عدم اعتماد اور صدر کی طرف سے توڑی گئی اسمبلی کو بحال کر دیا اس کے بعد پھر ایک نیا مرحلہ شروع ہوا جب سپریم کورٹ کی دی گی تاریخ پر ووٹنگ کرانے کے لیے مسلسل تاخیری حربے استعمال کئے گئے۔ معاملہ آدھی رات تک چلا گیا اور خطرہ تھا کہ کوئی انہونی ہو سکتی ہے مگر آخری وقت پر معاملات کو بگڑنے سے بچا لیا گیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی اور وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آگیا  اس سارے منظر نامے پر نگاہ ڈالی جائے تو نظر یہ آیا کہ سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت اور رابطے کا فقدان ہے  اگر یہ مراحل آئینی اور جمہوری روح کے مطابق طے کیے جاتے تو ملک میں اتنا انتشار نہ پھیلتا نہ ہی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا جو آج ہمیں درپیش ہے۔ اگرچہ نئی حکومت بن گئی ہے مگر دوسری طرف تحریک انصاف نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے حالات نارمل ہونے کی بجائے خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے ایک طرف یہ مطالبہ ہے کہ فوری انتخابات کرائے جائیں اور دوسری طرف یہ ضد ہے کہ آئینی مدت پوری کر کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ عوام یہ توقع کر رہے تھے کہ حکومت بدلے گی تو انہیں کچھ ریلیف ملے گا مگر لگتا ہے کہ انتشار اور بے یقینی کی یہ کیفیت اسی طرح سے جاری رہے گی۔اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ کہا ہے کہ وہ ڈیڈ لاک کی بجائے ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ بھی ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو ابھی تک کوئی براہ راست پیش کش نہیں کی کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے تاکہ ملک کو درپیش مسائل پر گفتگو کی جا سکے اصل میں اس وقت کی ا پوزیشن تحریک انصاف اور موجودہ مخلوط حکومت کے درمیان اس قدر فاصلہ ہے کہ جسے پاٹنا آسان نظر نہیں آتا تحریک انصاف نے  جلد الیکشن کرانے کے لیے اپنی مہم شروع کر رکھی ہے بہتر تو یہی ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے جلد یا بدیر انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔اس بات کو موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی سمجھتی ہیں لیکن وہ کیا چاہتی ہیں اس بارے میں معاملہ واضح نہیں ہے۔بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ جلد انتخابات کی طرف جائیں گے جب کہ مسلم لیگ نون کا بیان یہ ہے کہ مدت پوری کی جائے گی وزیراعظم شہباز شریف سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ یہ حکومت کتنے عرصے تک قائم رہے گی تو انہوں نے اس کا کوئی دوٹوک جواب نہیں دیا اور کہا کہ یہ اتحادیوں  کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اتحادی مل بیٹھ کر  انتخابات کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں تاکہ اس کے بعد تحریک انصاف سے اس معاملے پر مذاکرات ہو سکیں اور یہ ڈیڈلاک ختم ہو۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ حکومت میں شامل جماعتیں انتخابی اصلاحات کرنا چاہتی ہیں اور کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جن میں نیب کا مسئلہ بھی شامل ہے جو اس حکومت کے ہوتے ہوئے حل کرنا مقصود ہے حکومت شاید یہ بھی چاہتی ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں عوام کو ریلیف دے کر ان کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں لیکن دوسری طرف تحریک انصاف نے عالمی سازش کا بیانیہ دے کر عوام کو جس راستے پر ڈال دیا ہے اس سے شاید ہی حکومت کا کوئی ریلیف انہیں واپس لا سکے اس ساری صورتحال کا ایک ہی حل ہے کہ سیاسی قوتیں ایک جگہ پر بیٹھیں اور کوئی ایسا حل نکالیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو ورنہ یہ انتشار بڑھتا جائے گا اور جس بحران میں مبتلا ہیں اس سے نکلنے کی شاید کوئی صورت نہ مل سکے۔

مزید :

رائے -کالم -