اذیت کے آخری ہیں دن
پرانے وقتوں کی اک بات یاد آئی بات اک راجہ کے کھلنڈرے رنگیلا شاہ قسم کے راجکمار کی آخری رسومات کی ہے۔ کہتے ہیں اس ”رنگیلا شاہ“ کا دور ایسا کج فہم، کم عقل اور ادھ پڑھا تھا کہ جو کوئی زیادہ اچھل کود کرتا، دیواریں پھلانگتا چوکوں، چوراہوں میں تماشے دکھاتا، بھانڈ، اداکار یا کھلاڑی مجمع جمع کر لیتا، لوگ اسی کے لئے تالیاں بجانے لگتے۔
سنا ہے اس راجہ کا ازلی دشمن سات سمندر پار بیٹھا اسی راجہ کی راج نیتی میں بد نیتی کی نیت لئے، اس معصوم راجہ کے بھولے بھالے تماش بینی کے رسیا لوگوں کا سارا رنگ رس نچورڑنے کا تہیہ کئے ہوئے تھا سنا تو یہ بھی ہے کہ اسی راجواڑے کے دور بیٹھے دشمن نے اسی راجہ کے سب سے زیادہ تالیاں بجوانے والے جمع کر کے اپنے پرستاروں کا جھرمت اکھٹا کرنے والے کو اپنے شیشے میں اتارنے کے لئے ”رنگیلے شاہ“ کو پہلے تو شیشہ میں اتار کے اپنے ایک ”مہا بنیا“ کی خوش شکل کنیا سے اس کا کنیا دان کرا دیا یہی نہیں اس نے ادھر اُدھر کی ساری ریاستوں میں ڈھول پٹوا کے دھوم مچوا کے اپنے چنے ہوئے کھلاڑی کو اسی معصوم ریاست میں ایسے ”ایمپلانٹ“ کیا کہ وہ ”رنگیلا شاہ“ ریاست کے سب باسیوں کو اپنا نجات دہندہ لگے۔ یوں اس ”رنگیلے شاہ“ نے مہینوں، سالوں گلا پھاڑ پھاڑ کے جو دل میں آیا اوٹ پٹانگ وعدہ در وعدہ کئے رکھا۔ لوگوں میں سے عیاش طبع ناچ گانے کے رسیا تماش بینوں کی ایک آدھ منڈلی ہمیشہ اسے گھیرے رکھتی۔ کہتے ہیں دور کے دشمن نے اپنا یہ کام کر کے دو کام کئے پہلا یہ کہ اپنی کنیا کو اس سے واپس لیا، دوسرا کام پہلے کام سے کہیں دور رس نتائج والا تھا۔ وہ یہ ہے کہ اسی معصوم ریاست کے اک شوقین مزاج بندے سے اس کی منکوحہ کو لکھت پڑھت کرا کے اس ”رنگیلے شاہ“ کی گھر والی بنا دیا۔ اس آنے والی نیک بی بی کے لئے مشہور تھا کہ وہ جنتر منتر سے جادو ٹونے، ٹوٹکے کے کچھ ایسے شبد جانتی ہے کہ اس نے دیومالائی ”ہما“ پرندے میں اپنی جون بدلی ہوئی ہے کہ جس کے کندھے پر وہ ہاتھ رکھ دے وہی راجیہ کا راجکمار۔ ”رنگیلے شاہ“کو وہ ایسے ٹونے ٹوٹکے بتاتی کہ اس کے ہر کہے لفظ، لفظ لفظ سے جڑے فقرے فقروں سے بنی آواز سن سن کر راجیہ کے تھکے ہارے درماندہ، غریب مفلس نادار تالیاں بجا بجا کے اپنے ہاتھ لال کر لیتے۔ ”رنگیلے شاہ“کہنے کو زمین پہ پٹخ پٹخ کے قدم چلتا دکھتا، اصل میں وہ زمین سے اوپر اڑتا جہاز ہوتا یوں جو جی میں آتا وعدہ کر لیتا جب جی چاہتا اپنے وعدے سے مکر جاتا اس نے کبھی راجیہ کی پوری ریاست کے صدیوں سے بنے گھروں کی گنتی ہی نہیں کرائی تھی، اس لئے ایک دن اس نے اپنی اسی آسمانی ذہنی پرواز پر اڑتے جہاز بنے لوگوں سے وعدہ کر لیا کہ وہ چند سالوں میں اپنی پرجا کے لئے اتنے گھر گھروندے بنوا دے گا جتنے قبل از مسیح دور سے اب تک نہ ادھر بنے وہ تو بعد میں لوگوں نے گنتی کرا کے اسے بتایا کہ حقیقت کیا ہے وہ گنتی سے سہم گیا۔ پھر اک ایسی ہی کسی دیومالائی پرواز پہ رواں اس نے لوگوں سے وعدہ کر لیا کہ جتنی سوسالوں میں بھی ملازمتیں پیدا نہ ہوں، وہ کر دے گا۔ قصہ مختصر لوگ اس کی بے ہنگم بے ربط باتوں کے جال میں آ گئے۔ ”رنگیلے شاہ“ راجکمار بن گیا۔ اس کا اپنی جنتر منتر بی بی پہ اعتبار پختہ ہو گیا۔ راجکمار بن تو گیا مگر تھا تو وہی کھلاڑی راج نیتی میں راج کیسے کرنا، کیسے پرجا کے دکھ کم کرنے، کیسے لوگوں کے کاروبار میں بڑھاوا کرنا، یہ سب سے وہ لابلد تھا ہونا کیا تھا پرجا گلیوں میں نکل آئی۔ وہ کچھ جو جلد بازی میں اسی کو راج پاٹ دے بیٹھے تھے وہ اٹھ کے راجیہ کے راج محل میں آ جمع ہوئے کئی ہفتوں، مہینوں شور شرابا ہوتا رہا آخر لوگوں نے سنا کہ ”رنگیلے شاہ“رحلت فرما گئے۔ وید حکیم آ آ کے اس کی نبض دیکھ کے بول گئے کہ ”رنگیلے شاہ“گیا۔
سنا ہے وہ مہینے کی آخری تاریخ تھی کہ راج محل میں ”رنگیلے شاہ“کی رنگیلی مسہری آ بچھی وید حکیم کہیں آخری رسومات شروع ہوں پھر شور مچ گیا۔ جنتر منتر بی بی کی طرف سے پیغام آئے، خبر دار، جادو ٹوانا جاری ہے، دیکھنا کسی بھی وقت ”رنگیلے شاہ“کی رنگیلی راج نیتی میں انہونی کوئی ہو جانی ہے، تابوت کو پڑا رہنے دو۔ دیکھنا اس کا ڈھکن کھل جاناہے۔ ”رنگیلے شاہ“کی بند ہوئی آنکھ وا ہو جانی ہے۔ شور شرابا بڑھا تو بات قاضی تک جا پہنچی اس نے راجیہ کے سارے بڑے وید حکیم بلائے کئی دنوں تک بحث ہوتی رہی۔ اس دوران پوری راجیہ کے ذہن شل ہو گئے۔ کاروبار رک گئے۔ ”رنگیلے شاہ“کے ہاتھوں کئی سال سے رگیدی، کرچی کرچی ہوئی پرجا جو پہلے ہی ادھ موئی تھی مرنے لگی تب قاضی کا حکم آ گیا۔ ”رنگیلے شاہ“کی نبض بند ہو گئی آخری رسومات ادا ہوں۔
حکم دے دیا
تابوت صحن میں پڑے دسواں دن تھا آخری رسومات کے لئے آئے لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے مگر جس کے ذمہ قاضی نے آخری رسومات کی ذمہ داری دی ہوئی تھی، وہی ”مہا پروہت“ ٹال مٹول پہ لگا ہوا تھا۔
صبح ساڑھے دس بجے سے لوگ اشنان کر کے آگے بیٹھے تھے، مگر آخری رسومات کا بگل ہی نہ بجے۔ الٹا راج محل کے دالان میں جمع لوگوں میں سے کچھ ”رنگیلے شاہ“ کی رنگیلی راج نیتی کے بد نیت ہی انتظار میں تھے کہ جنتر منتر بی بی کا جادو چل جانا ہے۔ تابوت کا ڈھکن اٹھ جانا ہے، ”رنگیلے شاہ“ ہی کے کچھ دور قریب کے ”مامے، پھوپھے“ ہمہ ہوئی، تائے آ آ کے بے ربط غیر متعلق بحث میں پڑے تھے کہ کسی طرح وقت ٹالتے جاؤ۔ لوگوں کے دماغ ہٹ رہے تھے۔ ساری راجیہ ذہنی اذیت میں مبتلا تھی۔ اس وقت کسی کو یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ آئندہ راج پاٹ کا فیصلہ کرتے وقت چنے جانے والے راجکمار کے لئے اور اس کی رکھیا کرنے والی ہستیوں کا انتخاب کرتے وقت ان کی ذہنی صحت کو بھی جانچنے کا حکم ہونا چاہئے ورنہ کوئی ذہنی بیمار بندہ پوری پرجا کو صدمے پر صدمے دیئے جاتا رہے گا۔
خیر، ریاست کے قاضی نے راج محل کے راج باسیوں کو پابند کیا تھا کہ صبح ساڑھے دس بجے کے بعد ہر صورت میں صف بندی کر کے سارے موجود لوگوں کی گنتی مکمل کرنی ہے۔ آخری رسومات بہر حال اسی مقرر کئے دن میں مکمل کی جانی ہیں۔
صبح سے بیٹھے بھوکے پیاسے آگے، صف در صف باندھے لوگوں کی کنپٹیوں میں نبضیں بجنے لگیں آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگا۔ مگر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
بڑے مہنت کی انہوں نے بڑی منت کی کہ حضور گھر کے آنگن میں تابوت پڑا ہو تو سارا گھرانہ بھوکا پیاسا اور گہری اذیت میں ہوتا ہے اس لئے حکم ہے تدفین میں دیر نہ کرو
دن گزر گیا……رات آ گئی
اب مہامہنت کے سر پر قاضی کی تلوار تھی۔ جنتر منتر بی بی کا کوئی جادو اس رات نہ چلا۔ ہرگزرتے لمحے کے ساتھ تابوت میں کیل ہی سجھتی رہی۔ رات کے بارہ بجے مقرر کئے دن کی مہلت پوری ہونے لگی تو مہا مہنت نے اپنی بوری اٹھائی اور چپکے سے کھسک گیا۔ تب صفوں کی گنتی ہوئی اور تابوت تاریخ کے گہرے غار میں دبا دیا گیا۔ راجیہ کی پوری پرجا نے سانس میں سانس لیا۔