کپتان،آپ نے گھبرانا نہیں 

 کپتان،آپ نے گھبرانا نہیں 
 کپتان،آپ نے گھبرانا نہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 انتقال اقتدار  جیسے بھی ہو ا، سو  ہوا مگر وہ اکیلا لڑا،دریا میں مگر مچھوں کے مقابل کھڑا  ملک دشمنوں کو للکارتا،قوم کو جگاتا  اور عوام کی آنکھوں میں خواب سینچتا رہا۔وہ  قوم کے اس طبقہ کی بڑی تعداد کو عملی سیاست کے دھارے میں لایا جن کے نزدیک ووٹ ڈالنا ایک غیر ضروری اور بے فائدہ کام تھا،کم و بیش ربع صدی کی جدو جہد کے بعد2018کے الیکشن میں قوم نے عمران خان کو نجات دھندہ جان کر حکمرانی کا مینڈیٹ دیا،تبدیلی کی اس لہر نے ماضی میں عشروں حکمرانی کے مزے لینے والوں کی آنکھیں کھول دیں اور جیسے ہی وہ اقتدار میں آیا عمران خان مخالفین کی  نیند حرام ہو گئی،قوم سے انتخابی مہم میں کئے وعدے کے مطابق جب عمران خان نے احتساب کا ڈول ڈالا تو اس کی زد میں وہ سب آگئے جو 1985سے 2018 تک عشروں قومی وسائل پر عیاشی کرتے اور شیر مادر سمجھ کر نچوڑتے رہے،چشم فلک نے دیکھا کہ عمران خان نے کوئی نئے ریفرنس دائر کئے نہ مقدمات بنائے بلکہ ماضی کے حکمرانوں کی کھینچی ہوئی لائن پر ہی آگے بڑھے،اس پر شور برپا ہوا،  انتقام کا الزام آیا،مگر یہ کسی  نے  نہ سوچا کہ حال کے دوستوں کی ماضی کی مہربانیاں سامنے آرہی ہیں۔


پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کے باوجود وہ قوم سے کئے وعدے کے مطابق احتساب کی راہ پر سست رفتاری سے ہی سہی مگر آگے بڑھتا رہا،سینہ چاکان چمن کے جب اپنے دامن چاک ہونے لگے تو ان کو آئین اور جمہوریت کا بخار چڑھنے لگااس حرارت نے ماضی کے دشمنوں کو  متحد کر دیا،اگر چہ ابتداء میں یہ اتحاد چوں چوں کا مربہ ثابت ہوا  اور آئے روز جڑتا،بکھرتا رہا،مگر کھال اور مال بچانے کی دھن نے اس اتحاد کو انتخابی اور سیاسی نہیں بلکہ مزاحمتی اور مدافعتی اتحاد بنا دیا،اس کوشش میں غیر ملکی سازش بھی شامل ہوئی تو عدم اعتماد تحریک آگئی،اس عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کیلئے مخالف  جماعتیں تو متحد ہونی ہی تھیں مگر  تحریک انصاف کے وہ رہنماء  بھی  اس کا حصہ بن گئے جن پر ان ہی کی حکومت میں کرپشن کے الزامات میں کیسز بنے،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کی سیاسی دشمنی تو ہر کسی پر عیاں ہے،مگر اپنوں کی  غداری  بھی کسی سے پوشیدہ نہیں،یوں اب ماضی کے حریف اور کچھ حلیف عمران خان کے خلاف متحد و یکجان ہیں مگر کپتان کو بھی اپنی غلطیوں اور ایسے ہی فیصلوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔


اپوزیشن کو گمان تھا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان مزاحمت چھوڑ کر مدافعت کی راہ اپنائیں گے اور ان کے بہت سے منتخب ارکان ان کو چھوڑ کر نئی حکومت کے دامن میں پناہ تلاش کریں گے مگر عدم اعتماد ہونے سے قبل اسلام آباد اور پورے پاکستان میں جلسوں  نے ثابت کیا کہ عوام کی اکثریت اس کیساتھ ہے، عدم اعتماد کے بعد اتوار کے روز عمران خان نے قوم سے اپیل کی کہ عشاء  کی نماز کے بعد گھروں سے نکلیں اور بھر پور احتجاج کریں،تو پوری دنیا  میں مقیم پاکستانیوں نے بھر پور احتجاج کیا،بچے بوڑھے خواتین مرد نوجوان سب سڑکوں پر نکل آئے،  اسلام آباد نے تو نکلنا  ہی تھا  مگر لاہور کے لبرٹی چوک پر احتجاج کے دوران ہر طبقہ کے ہزاروں  لوگوں کی شرکت نے حیران کر دیا۔


عمران خان نے متعدد بار کہا کہ وہ ان سے ہاتھ ملائیں گے نہ ساتھ بیٹھیں گے،شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد ہر کوئی  سوچ رہا تھا کہ اب کپتان کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ کیا وہ ان کیساتھ بیٹھ کر ایوان کی کارروائی کو چلانے میں رکاوٹ ڈالیں گے یا سمجھوتہ کر کے اپوزیشن لیڈر بن جائیں گے مگر اس بار بھی اس نے  حیران کن  فیصلہ کیا،تحریک انصاف کے ارکان نے وزیر اعظم  کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے کا اعلان کر دیا،اس وقت عمران خان کیساتھ ان کے فطری اور حقیقی نظریاتی ساتھی رہ گئے ہیں،ہر دور میں پارٹی بدل کر حکومت میں شامل رہنے والے الیکٹ ایبلز سے ان کی جان چھوٹ گئی،ق لیگ،عوامی لیگ اب بھی ان کیساتھ پورے قد سے کھڑی ہے،شیخ رشید کو تو موجودہ حکومت نے کوئی پیشکش نہیں کی مگر چودھری پرویز الٰہی کو تو پنجاب کی وزارت  اعلیٰ کی باقاعدہ پیش کش کی گئی تھی،لیکن اب  دونوں نہ صرف  عمران خان کے دست و بازو ہیں  بلکہ  دوستی اور تعلق کو مستحکم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔


      140کے قریب ارکان کے استعفے  آ جاتے ہیں،تو کیا ہو گا؟ نئی حکومت کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ خالی حلقوں میں ضمنی الیکشن کرا دئیے جائیں گے۔اور اس کے بعد اگر  پنجاب اور کے پی کے اسمبلی سے بھی تحریک انصاف جو  اکثریتی جماعت ہے، استعفے دے دیتی ہے  تو نئی مخلوط حکومت کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ  اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد نئے عام الیکشن کرانا آئینی ضرورت بن جائے گی۔دوسری طرف  کپتان نے گھر بیٹھنے کے بجائے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اسلام آباد میں وہ طاقت کا مظاہرہ کر چکے،پشاور، کراچی،لاہور  اور دوسرے شہروں میں بھی  عوام سے خطاب کریں گے،عوام کے احتجاج میں بڑی تعداد میں شرکت سے ثابت ہو گیا کہ چند الیکٹ ایبلز نے اگر کپتان سے ناطہ توڑا ہے تو عوام کی طاقت آج بھی عمران خان کیساتھ ہے اور آج الیکشن ہوں یا2023میں کپتان اس بار دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آئے گا اور اپنا ادھورا ایجنڈا مکمل کرے گا۔


رہی حالیہ مخلوط حکومت تو اس کا انجام آغاز میں ہی  دکھائی دے رہا ہے اور ماضی کے تجربات تو لوگ ابھی بھولے نہیں، 1977میں بھٹو کیخلاف نو جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے ملک غیر تحریک چلائی،بھٹو تو رخصت ہو گئے مگر  نظام مصطفیٰ آیا  نہ عوام کو نجات ملی اور قومی اتحاد تتر بتر ہو گیا،1988میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے اسلامی جمہوری  اتحاد  بنا،جس کے مدارالمہام نواز شریف تھے  1990کے الیکشن میں اس اتحاد کو کامیابی ملی مگر مخلوط حکومت کامیابی سے نہ چل سکی اور کچھ عرصہ کے بعد صرف شریف خاندان حکمران تھا باقی پارٹیاں اپوزیشن میں تھیں،مشرف دور میں نوابزادہ نصراللہ کی کوششوں سے جلا وطن بینظیر اور نواز شریف میں میثاق جمہوریت ہواء، جس کے بعد دونوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی،2003میں میثاق جمہوریت کے تحت الیکشن میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مخلوط حکومت بنائی مگر پنجاب سے راجہ ریاض جو آج تحریک انصاف کو داغ مفارقت دیکر جہانگیر ترین کو پیارے ہو گئے ہیں پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر تھے جنہوں نے میثاق جمہوریت کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی کشتی سے چھلانگ لگائی،حالیہ بننے والی حکومت کے پاس زیادہ  وقت نہیں ،محسوس ہو تا ہے کہ مخلوط حکومت کی دال جوتیوں میں بٹے گی، پہلے خان کہتا تھا مگر اب قوم کہ رہی ہے،کپتان آپ نے گھبرانا نہیں اور جن کو ماضی میں  ہماری پاک فوج ایک آنکھ نہ  بھاتی تھی،سن لیں کہ عمران خان اور قوم اب بھی دفاع وطن کے لئے پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے،وقت ثابت کرے گا کہ کون محب وطن  اور اداروں سے  محبت کرنے والا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -