عمران خان، ریاستِ مدینہ اور بین الاقوامی سیاسیات (2) 

 عمران خان، ریاستِ مدینہ اور بین الاقوامی سیاسیات (2) 
 عمران خان، ریاستِ مدینہ اور بین الاقوامی سیاسیات (2) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ترکی کے اردوان کے بعد انڈیا کے مودی کا دوسرا نمبر تھا جس نے نئے وزیراعظم کو مبارکباد دی۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو کسی تیسرے ملک نے شہباز شریف کو مبارک بادی کا پیغام نہیں بھیجا۔ شہباز شریف جس طرح بھی مسندِ اقتدار پر فائز ہوئے یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا۔ 57اسلامی ممالک میں سے ترکی کے علاوہ کسی اور مسلم ملک نے پاکستان کے وزیراعظم کو مبارک نہ دے کر ایک بین الاقوامی روائت شکنی کا ارتکاب کیا ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کی حیثیت سے اس پر کیا ردِ عمل کرتا ہے۔ امید یہ بھی ہے کہ ان سطور کے چھپنے سے پہلے روس، چین اور بہت سے مسلم ممالک شہباز شریف کو مبارک بادی پیغامات ارسال کر دیں گے کیونکہ یہ پسند ناپسند کا سوال نہیں، ایک بین الاقوامی ضابطہ ء اخلاق ہے۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کے وزیراعظم نے مبارک دے کر ان 22کروڑ پاکستانیوں کی دل شکنی کی ہے جو کشمیر کاز کے ساتھ عمر بھر کی وابستگی رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں نریندر مودی کا پیغامِ تہنیت موجودہ پاکستانی قیادت کے لئے پیغامِ تعزیت کے مماثل ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا نے سمجھ رکھا ہے کہ نون لیگی حکومت، مسئلہ کشمیر کو دفن کر چکی ہے! پاکستانی وزیراعظم کو جلد از جلد مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف سے انڈیا کو آگاہ کرنا چاہیے۔
انڈیا میں جو 20کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں ان کی دل آزاری کا سامان بھی اسی مبارک بادی سے وابستہ ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، صدر اردوان کی مبارک بادی میں ترکی نے صرف تجارتی پہلو کو مدنظر رکھا ہے۔ نون لیگ کی گزشتہ حکومتوں نے ترکی کے ساتھ جو تجارتی معاہدے کئے، ان کا جائزہ میڈیا کو لینا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ پاک ترک تجارت کا جو حجم نون لیگ کی حکومت میں تھا اس میں کس ملک کا پلہ بھاری تھا۔ کیا ترکی کو پاکستان کی برآمدات زیادہ تھیں  یا ترک برآمدات (پاکستان کے لئے) زیادہ تھیں۔اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں پاک ترک تجارت کی بیلنس شیٹ کس کے حق میں تھی؟…… میرا خیال ہے یہی تجارتی وجہ ہے کہ ترک صدر نے نون لیگ کی حکومت کو خوش آمدید کہنے میں اتنی عجلت سے کام لیا ہے۔
اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ترکی، ناٹو کا ممبر ہے۔ اس نے ماضی قریب میں روس سے جو ایس۔ 400 فضائی دفاعی نظام خریدا تھا اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ، ترک صدر سے ناراض رہا اس لئے امریکی نوازشات کی بوجھاڑ ترکی پر اس قدر نہ تھی جتنی کہ اس فضائی نظام کی خرید سے پہلے تھی…… کہنے کا یہ مطلب ہے کہ دورِ قدیم سے لے کر دور حاضر تک بین الاقوامی تعلقات میں مذہب، ثقافت، رنگ و نسل اور تہذیب و تمدن کوئی بڑا رول ادا نہیں کرتے۔یہ تمام کھیل ”پیسے“ کا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ لیگی حکومت ترکی سے کیا تجارتی معاہدات کرتی اور ترک ٹکسال میں کیا اندوختہ بھیجتی ہے۔ فی الحال نظر نہیں آتا کہ پاکستان اس سلسلے میں کچھ آگے بڑھ سکے گا۔ وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو آنے والے دنوں میں زبردست مہنگائی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہوگا۔
لیکن جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو آپ دیکھیں گے انڈوپاک تجارت کا حجم اب ”دن دگنی رات چوگنی“ ترقی کرے گا۔ لیکن واہگہ کے راستے جو سامانِ تجارت، افغانستان یا وسط ایشیائی ریاستوں کو جائے گا، اس کی چیکنگ کے کیا انتظامات ہوں گے، ان پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
ایک اور ضرورت جو پاکستان کو اب زیادہ شدت سے محسوس ہو گی وہ اپنے میڈیا کی آزادی ہے۔ پیکا کا دروازہ تو اگرچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے نے بند کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا وہ جھکاؤ جو 10اپریل سے قبل اپوزیشن کے حق میں تھا، وہ جب ختم ہو جائے گا (اور ہو بھی چکا ہے) تو حکومت وقت کو اپنے چہیتے میڈیا چینلوں کو چالو رکھنے کے لئے جو سرمایہ درکار ہو گا اس کا بندوبست محض کمرشلز نہیں کر سکیں گے۔
آج سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا، باقی تمام اقسامِ میڈیا کی سرحدیں کراس کرکے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا کہا جا رہا ہے، لوگ اس پر نظر رکھنے کی عادت میں ”مبتلا“ ہو چکے ہیں کہ کہہ کون رہا ہے۔
بظاہر عمران خان نے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں اپنی ذات پر کرپشن کا کوئی داغ لگانے سے احتراز برتا ہے۔ میڈیا میں اگر کچھ ناروا قسم کے کرپشن الزامات آ بھی رہے ہیں تو ان کی نوعیت زیادہ تر خانگی اور نہایت معمولی قسم کی ہے۔ وہ ان الزامات کا جواب نہیں بن سکتے جو گزشتہ سیاسی قیادتوں کا ”طرۂ امتیاز“ بتائے جاتے رہے ہیں۔ مقصود چپڑاسی، فالودے والے اور پاپڑ والے وغیرہ لوگوں کے نام اب گویا گھریلو نام بن چکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم ان ناموں کو لوگوں کے ذہنوں سے محو ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔خان صاحب کا عوامی خطاب کوئی لچھے دار تقریر نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسا سادہ اور آسان فہم لیکچر ہوتا ہے جو ہر مزدور، کلرک، آفیسر اور جوان کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس کا جواب دینا ہوگا۔
وجہ یا وجوہات کچھ بھی ہوں، ملک کا خزانہ خالی بتایا جا رہا ہے، لوگ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور اب مزید دب جائیں گے۔ غریب غربا کو ریلیف دینے کا عمل جب بھی شروع کیا گیا، اس پر کرپشن آمیزیوں کی فضا طاری رہے گی۔ اگر موجودہ حکومت نے جلد کوئی انقلابی قدم نہ اٹھایا تو میرا خیال ہے عمران کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا مشکل ہوگا۔
کسی ملک کو اوجِ ترقی و خوشحالی پر لے جانے کے لئے اس کی سیاسی قیادت کا بے لوث ہونا شرطِ اول ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ قیادت کے بحران کا سامنا رہا ہے۔ ہر آنے والا حکمران جانے والے حکمرانوں کی غلطیوں، خامیوں اور کمزوریوں کو شمار کرتے کرتے رخصت ہو جاتا ہے اور پر نالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ موجودہ حکومت جس طرح بھی اقتدار میں آئی ہے، اس پر بحث و مباحثہ کے دروازے چوپٹ ہوتے رہیں گے لیکن اگر کسی نے پاکستان کو کسی مستقل خوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اس کے لئے ”خاموش پالیسی“ درکار ہوگی۔ اس میں شک نہیں ہوگا کہ سابق حکومت نے بہت سی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہوگا۔ جمہوریت ایک ایسی طرزِ حکومت ہے کہ اس میں دودھ سے نہانا ناممکن ہے۔ جو لوگ عوام کے نمائندے بن کر حکومت میں آتے ہیں، وہ گویا سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اپنے سرمائے کو واپس لینا یا لانا کوئی ایسی بُری بات نہیں۔ ہر کاروبار کا اساسی وتیرہ یہی ہے۔ یہ کہنا کہ سیاست، کاروبار نہیں، میرے نزدیک خود فریبی ہے۔ جمہوریت ایک تجارت اور کاروبار ہی تو ہے۔ فرق یہ کہ اس کاروبار میں اپنے سرمائے کو واپس لانے میں اتنی دور نہیں نکل جانا چاہیے کہ لوگ انگلیاں اٹھانے لگ جائیں۔ خان صاحب کی حکومت کا نقطہ ء زوال مہنگائی تھا۔ وہ لنگر خانے، مسافر خانے، صحت کارڈز اور دوسری اسی طرح کی ”غریب نوازیاں“ کرتے رہے لیکن اپنے ان سرمایہ کاروں کو اس گنگا میں ہاتھ دھونے کے مواقع نہ دیئے جو سرمایہ کاری کرکے Electableبنے تھے۔ جب تک ہم پاکستانی جمہوری نظام کی اس ”خامی“ پر تنقید کرتے رہیں گے، آگے نہیں بڑھ سکیں  گے……
ریاستِ مدینہ والے صحابہ کرام آج کہاں سے لائیں گے؟ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں عرض کیا، وہ ایک پیغمبرانہ دور تھا۔ خالقِ حقیقی، ایک نیا نظامِ عالم مرتب کر رہا تھا۔ اس میں جب کافروں اور مومنوں کے درمیان جنگ ہوئی تو خدا نے اپنے فرشتے مومنوں کی قلتِ تعداد پوری کرنے کے لئے بھیجے وہ باب اب بند ہو چکا۔ اب کوئی فرشتہ اوپر سے نازل نہیں ہوگا۔ اب انسان کو فرشتہ بننا پڑے گا…… اور یہ چیلنج ہی دراصل آج ہر صاحبِ اقتدار کا چیلنج ہے۔ فرشتے بے ایمان نہیں ہوتے، لیکن وہ سرمایہ کار بھی نہیں ہوتے اس لئے آج کے ”فرشتے“ کسی جنگِ بدر میں کسی مومنانہ یا اسلامی حکومت کی مدد نہیں کر سکتے…… نجانے اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -