رمضان المبارک اخوت و بھائی چارگی کا مہینہ!
”ارشاد نبوی ؐ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی روزہ کا ثواب عطا فرماتا ہے جو دودھ کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرائے اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ پھر اسے کبھی پیاس نہ لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ (رواہ البیہقی)
مواخات کا لفظ اخوت سے بنا ہے اور لفظ اخوت، اخ سے بنایا گیا ہے اخ کا معنی ہے بھائی اور اخوت کا معنی بھائی بھائی ہونا اور بھائی چارہ پھر جب آپس میں بھائی چارہ کی فضا قائم ہو جائے تو اسے مواخا? کہتے ہیں یعنی آپس میں اس طرح ہو جانا جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی کے لیے ہوتا ہے۔ عام طور پر بھائی چارے کا رشتہ خاندانی تعلقات کی بنا پر ہوتا ہے لیکن اخوت اسلامی کا رشتہ بہت زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے کوئی مسلمان چاہے دنیا کے کسی کنارے میں رہتا ہو، کسی بھی رنگ یا نسل سے تعلق رکھتا ہو وہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر اس مسلمان کا بھائی ہوتا ہے جو دنیا کے کسی خطہ میں بھی ہو، اللہ رب العزت نے اخوت کو ایک نعمت قرار دیتے ہوئے سورہء آل عمران میں فرمایا:
”تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں کو الفت اور محبت سے جوڑ دیا اور پھر تم اس نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی ہو گئے مواخا? یعنی آپس میں بھائی چارے کا اعلیٰ ترین معیار اس وقت نظر آتا ہے جب ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہ ؐ نے مہاجرین اور انصار میں سے ایک دوسرے کو بھائی بھائی بنایا پھر ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کو اپنے مال میں شریک کیا، اپنے گھر کا ایک فرد بنا لیا اور پھر ان بھائیوں کے لیے ہر مرحلہ پر ایثار سے کام لیا۔
شریعت اسلامی نے مسلمانوں کے لیے ہر زمانہ اور ہر دور میں آپس میں اخوت کے رشتہ کو قائم کرنے کی ہدایات دیں۔ لیکن رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو خصوصی طور پر قائم کرنے کی ہدایات دیں۔
یہاں تک کہ رسول اللہ ؐ نے جب شعبان کی آخری تاریخ کو رمضان المبارک کے فضائل کے بارے میں تقریر فرمائی تو آپ نے یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا:
ترجمہ ”فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ باہمی رواداری اور غم خواری کا مہینہ ہے۔“
جب ان ارشادات کا مطالعہ کیا جائے جو رسول اللہ ؐ نے رمضان المبارک کے مقدس ماہ کے بارے میں فرمائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے مسلمانوں کو اس ماہ میں اخوت کی خصوصی تربیت دی۔ اخوت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان دوسرے سے ہمدردی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور اسے تکلیف یا دکھ دینے سے پرہیز کرتاہے۔
آپس میں بھائی چارے کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ کینہ، بغض، حسد اور اس جیسے برے جذبات آپس میں ختم ہو جائیں اور آپس میں ہمدردی اور شفقت پیدا ہو، اس بات کی تربیت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:”کہ جو شخص اس ماہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو وہ اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور نجات کا ذریعہ ہو گا اور جس کا روزہ کھلوایا جائے اس کے اجرو ثواب میں کمی کئے بغیر روزہ کھلوانے والے کو بھی اتنا ہی اجروثواب ملے گا۔“
یہ ارشاد نبوی ؐ سننے کے بعد صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپ ؐ نے فرمایا، اگر کوئی شخص روزہ دار کا روزہ صرف ایک کھجور، دودھ یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی کھلوا دے تب بھی اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی ثواب عطا فرمائے گا۔
اخوت اسلامی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی مشکلات میں کام آئے اور دنیاوی پریشانیوں اور دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے خصوصاً رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں پوری کوشش رہے کہ کسی مسلمان کو اس سے تکلیف نہ پہنچے۔ روزہ ایثار اور قربانی کا سبق دیتا ہے اسے اپنے معاشرہ میں ہر فرد کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کرے اگر تاجر ہے تو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کرنے یا ماپ تول کی کمی کر کے مسلمان بھائیوں کی مشکلات میں اضافہ کا سبب نہ بنے۔ چنانچہ ایسی تمام باتوں سے پرہیز کی تعلیم دی گئی کہ جن سے اخوت کے رشتہ میں کمی آنے کا خطرہ ہو۔
رمضان المبارک کے صرف اس ایک ماہ میں جب اہل معاشرہ آپس میں بھائی چارے اور مواخات کی فضا بنا لیں تو اس کے اثرات پورے سال بلکہ پوری زندگی میں اس طرح نظر آئیں گے کہ ہر مسلمان دوسرے کے لیے وہی پسند کرے گا جو اپنے لیے کرتا ہے، ہر مسلمان دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا، اپنی زبان اور عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرے گا۔ اس لیے کہ جب معاشرہ میں اخوت قائم ہو جاتی ہے تو پھر اس معاشرے میں ایثار و قربانی، شفقت و محبت، ہمدردی اور غمخواری کے جذبات ہر شخص کو نظر آتے ہیں۔
٭٭٭