روزہ:معرفت الٰہی اور معمولات نبویؐ کی روشنی میں 

روزہ:معرفت الٰہی اور معمولات نبویؐ کی روشنی میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حدیث قدسی میں ارشاد الٰہی ہے کہ۔۔۔”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا“۔۔۔اور دوسری روایت میں یوں ارشاد ہوا کہ۔۔۔”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں“۔۔۔یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ بے شک عبادات تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے لیے ہوا کرتی ہیں لیکن خصوصاً روزے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے ساتھ منسوب کیوں فرمایا؟۔۔۔ یقینا اس کے ظاہری اور باطنی رموز واسرار ہیں۔ محض اللہ کی رضا کے لیے اسباب کے باوجود روزہ دار،حالت روزہ میں تمام حلال چیزوں کو اپنی زات پر حرام کر لیتا ہے اور اس کا مقصد رضائے رب کا حصول ہوتا ہے۔اسی عظیم مقصد کے لیے وہ بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرتا ہے،کام کی مشقت اُٹھاتا ہے اور اس میں ریاکاری نہیں ہوتی کیونکہ یہ خالصتاً بندے اور اللہ کا معاملہ ہے تو اس سے روح کو تقویت ملری ہے۔اس سے یاد الٰہی کی توفیق ملتی ہے۔۔۔ لیکن روزہ ہی روح کی غذا ہے۔۔۔جسم کی غذا غلہ واناج اور پھل وغیرہ ہیں لیکن روزے سے روح طاقتور ہوتی ہے جو معرفت الٰہی کی طرف پہلا قدم ہے۔
روزے سے خواہشات نفسانی اور شہوات کا قلع قمع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صحت انسانی پر (جسمانی حوالے سے)بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے سے جسمانی طور پر نقاہت وکمزوری پیدا ہوجاتی ہے،اس کا بھی بہت جلد ازالہ ہوجاتا ہے۔انسان کی عقل تقویت پکڑتی ہے، باطل جذبات فروغ پاتے ہیں، نیکی کا جذبہ بڑھتا ہے اور بدی کی قوتیں مسمار ہوتی ہیں۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ ”احیاء علوم الدین“ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ۔۔۔”۔۔۔کثرت طعام سے دل مردہ ہونے لگتا ہے۔ تمام رات کی عبادت سے بہتر ہے کہ انسان رات کو ایک لقمہ ہی سہی،کم کھائے۔ ہربُرائی کا سرچشمہ۔۔۔شکم سیر۔۔۔ ہونا ہے اور نیکی کی بنیاد۔۔۔بھوکا رہنا۔۔۔ ہے۔ بھوک سے قلب کی صفائی، طبیعت میں تیزی اور بصیرت،کامل ہوتی ہے جبکہ زیادہ کھانے کے بعد دل ودماغ بوجھل ہوجاتے ہیں۔ حافظہ میں فرق آتا ہے،ذہن کند ہوجاتا ہے،بھوک ہی سے قلب کو نرمی میسر آتی ہے، انکسار،تواضع، اپنے دوسرے بھائیوں سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بغاوت،سرکشی اور بُرائی کا جذبہ بھوک سے مرنے لگتا ہے۔ جب ایک شخص بھوکا نہ رہے گا تو بھوکے لوگوں کاحال کیا جانے گا اور جب ان کا صحیح حال نہ جان سکے گا تو دوسروں کے لیے تواضع اور مہربانی کہاں سے پیدا ہوگی؟۔۔۔بھوکا زیادہ بولنا نہیں چاہتا، اسلئے گفتگو کے فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔۔۔“ اب حکمت کے ان انمول نموتیوں پر غوروفکر کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب نفسانی خواہشات کا قلع قمع ہوجائے اور انسان فتنہ پردازیوں سے محفوظ ہوجائے تو اس وقت معرفت الٰہی کی طرف انسان کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور اسے نور باطن نصیب ہوجاتا ہے۔ خود رسول کریم ﷺ نے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے معرفت الٰہی کے متعلق ارشاد فرمایا کہ۔۔۔”۔۔۔روزہ دار کے لیے دوخوشیاں ہیں،ایک خوشی اسے اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری اس وقت ملے گی جب اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا۔۔۔“یعنی اس کو رب کریم کی معرفت اور پہچان نصیب ہوگی۔ روزے سے نفس انسانی کا تزکیہ ہوتا ہے اور ارواح کو تقویت نصیب ہوتی ہے۔تبھی تو محبوب رب اللعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ۔۔۔ رمضان المبارک میں بنی آدم کے ہر عمل کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔۔۔روزہ بُرائیوں اور دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے۔۔۔ ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ، روزہ ہے۔۔۔ماہ رمضان میں مومنوں کا رزق کشادہ کر دیاجاتا ہے۔۔۔جس نے لوگوں کے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا، اس نے شرک کیا۔۔روزہ کی عادت رکھو،کیونکہ کوئی عبادت اس جیسی نہیں۔۔۔روزہ دار کے لیے افطار کا وقت قبولیت دعا کا خوبصورت موقع ہے کیونکہ اس وقت دعا مسترد نہیں کی جاتی۔۔۔جو شخص رمضان میں رات کو تراویح پڑھے ایمان کے ساتھ اور صبر کے ساتھ،تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔۔۔روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں۔۔۔ وفات پانے والے کے ذمہ روزے ہوں تو اس کے ولی کو چاہیے کہ وہ مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھے۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔
رسول کریم ﷺ کے ان ارشادات مبارکہ سے روزے کی اہمیت اور معرفت الٰہی کی طرف کامیابی کے لیے راہنمائی ملتی ہے۔کسی نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ معرفت الٰہی کے حصول کے لیے کیا نسخہ کیمیاہے؟ ارشاد فرمایا کہ۔۔۔”۔۔۔ چاہتا ہوں کہ روزہ دار ماہ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ راہ خدا میں خرچ کرے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ اس ماہ مبارک میں بہت زیادہ خرچ فرماتے تھے،سخاوت کرتے تھے۔ یہی معرفت الٰہی کے حصول کا بہترین راستہ ہے۔۔۔“ امام گزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر ارشاد فرما یاکہ۔۔۔”روزہ نفس کی زکوٰۃ ہے اور جسم کو محنت و مشقت کا عادی بناتا ہے نیکی کی طرف رغبت دلاتا ہے، روزہ انسان کے لیے ایک ڈھال ہے، بدن کو بھوکا رکھنے کے لیے قلب کی صفائی ہے۔قوت نورانیہ وقوت ملکیہ بڑھتی ہے“۔۔۔اور یہی معرفت الٰہی کے حصول کا پہلا زینہ ہے۔ اس کے برعکس روزہ کی قدر دانی نہ کرنا یا روزہ رکھ کر تزکیہ نفس پر توجہ نہ دینا انتہائی نقصان دہ امر ہے اور ایسے روزہ سے معرفت الٰہی کا نور نصیب نہیں ہوتا۔۔۔خود رسول رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ۔۔۔”جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھی اپنی غلط عادات کو ترک نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کو اس شخص کے بھوکے رہنے یا پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں“۔۔۔یعنی روزے کا منشاء بھوکا پیسا رہنا نہیں بلکہ اصلاح احوال ہے اور اصلاح احوال ہی سے معرفت الٰہی نصیب ہوتی ہے۔ حدیث نبویﷺ ہے کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ ماہ رمضان میں روزے رکھنے والے کے لیے تمام پچھلے گناہوں کی معافی کا مژدہئ جانفزا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے (حجۃ اللہ البالغہ،حصہ دوئم) میں لکھا ہے کہ۔۔۔ملکیت جو اُمور چاہتی ہے اور جو اس کا خاصہ ہے عالم ملکوت سے تشبیہ پیدا کرنا، خدائے ذوالجلال کی معرفت حاصل کرنا، قوت حیوانی سے گریزاں ہوتی ہے۔ اب قوت حیوانی کو ان اُمور کی طرف مائل کرنا ہے تو اس کا بہترین ذریعہ روزہ ہے، چونکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قوت حیوانی کو معطل رکھنا ممکن نہیں تھا، اس لیے ایک عرصہ متعین کر لیا گیا تاکہ روح، قوت ملکوتی کی لذتوں سے آشنا ہو اور گزشتہ خطاؤں کا کفارہ ہوجائے۔۔۔ حیوانی قوت کا خاتمہ مقصود نہیں بلکہ اسے اعتدال پر لانا مقصود ہے۔اس لیے اس کا صحیح راستہ روزہ ہے۔ روزہ سے حیوانی قوت کی سرکشی ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاہب عالم میں سے ہر ایک مذہب میں کسی نہ کسی حوالے سے روزے کا وجود موجود رہا۔ اور یہی معرفت الٰہی کے حصول کاموزوں ترین راستہ ہے۔آیئے دعا کریں کہ اے ہمارے رب!ہمیں اپنی معرفت کانور عطا فرما اور اپنی رضا کے لیے روزے کی توفیقات مرحمت فرما۔۔۔آمین۔
٭٭٭

رسول رحمت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ:”جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھی اپنی غلط عادات کو ترک نہ کیا، اللہ تعالیٰ کو اس شخص کے بھوکے رہنے یا پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں“

مزید :

ایڈیشن 1 -