بالآخر مذاکرات ہی معاملات کا حل
سعودی عرب میں ایران کا سفارتخانہ سات سال بند رہنے کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ریاض میں قائم سفارتخانے کے دروازے ایرانی ٹیم کے معائنے کے بعد کھول دیے گئے ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایران اورسعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت سفارتی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے ایرانی تکنیکی وفد بدھ کی دوپہر ریاض پہنچا جہاں سعودی حکام نے وفد کا استقبال کیا۔ ترجمان نے بتایا کہ ایرانی وفد ریاض میں سفارتخانہ اور جدہ میں قونصل خانہ کھولنے کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم میں ایران کے مستقل مندوب کی حیثیت سے سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بھی ضروری اقدامات کرے گا۔واضح رہے کہ یہ سفارتی مشن 2016ء میں اْس وقت سے بند ہو گیا تھا جب سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔گزشتہ ماہ چین کے ثالثی کردار کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب تعلقات بحال ہو گئے تھے اوردونوں ممالک نے اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ باضابطہ طور پر طے پانے والے اِس معاہدے کے تحت ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام اور معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہیں گے۔ واضح رہے کہ مذاکرات کی کامیابی کا باضابطہ اعلان بیجنگ میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران چین، ایران اور سعودی عرب کے مشترکہ بیان کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ساتھ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی معاہدے کی تائید کی تھی۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ،سفارت کاروں کے تبادلے اور دیگر اقدامات کے حوالے سے جلد مذاکرات کی خبریں بھی بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ کی گئی ہیں۔ دونوں ممالک نے 17 اپریل 2001 ء کو طے پانے والے سکیورٹی تعاون کے معاہدے کے ساتھ ساتھ 27 مئی 1998ء کو طے پانے والے اْس معاہدے پر بھی اتفاق کیا تھا جس کا مقصد اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی، سائنسی، ثقافتی، کھیلوں اور نوجوانوں کے امور میں تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی اُس وقت شروع ہوئی جب سعودی حکام نے ایک مذہبی رہنما کو پھانسی دے دی۔ایران میں مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا جس کے بعد 2016ء میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منقطع ہو گئے۔
دنیا بھر میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے، باقی تمام ممالک کے لیے یہ ایک مثال ہے کہ بڑے سے بڑے مسئلے کا حل نیک نیتی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔کیا ہی اچھاہو کہ دوسرے ممالک بھی اِن کی دیکھا دیکھی اپنے تنازعات کی طرف توجہ دیں، اسرائیل فلسطینیوں کے حال پر رحم کرے، بھارت اہل ِ کشمیر کی خواہش کے مطابق تنازعہ حل کرے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے سیاستدان بھی اِس سے کچھ سبق سیکھ لیں لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ ہمارے ہاں جاری اِس سیاسی دنگل میں فریقین سنجیدہ ہیں اور نہ ہی کسی کو ”چین“ کی حیثیت دینے کو تیار ہے اور اب تو معاملات سیاست سے نکل کر اداروں کی طرف چل نکلے ہیں۔یہ بحث پہلے بھی اِن سطور میں کی گئی ہے کہ ہمارے ہاں پہلے سیاست دان آمنے سامنے تھے، اب پارلیمان اور عدلیہ بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ وزیر قانون نے لگ بھگ سب ہی جماعتوں کے نمائندوں کو ساتھ بٹھا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ء کے خلاف درخواستوں کی سماعت پر بنائے جانے والے آٹھ رکنی بینچ کو مسترد کر دیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ قانون بن جائے تو عدالت اُس کا جائزہ لے سکتی ہے، قانون توبنا ہی نہیں اوربینچ بنا کر کیس شروع کر دیا ہے،عدالتی اصلاحات بل پر کیس کا وقت درست ہے اور نہ کیس چلایا جاسکتا ہے۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ یہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار میں اداروں کی مداخلت ہے، کیا وجہ ہے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ججوں کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا؟ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عوام کے حق پر سمجھوتا نہیں ہونے دیں گے، کسی کو اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ پارلیمان کو قانون سازی سے روکا جائے۔متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے سپریم کورٹ سے فْل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا۔پاکستان بار کونسل سمیت بعض بار کونسلوں نے بھی بینچ کو مسترد کر دیا اور وکلاء نے جمعرات کو عدالتی کام کا بائیکاٹ بھی کیے رکھا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے عدالتی اصلاحات بل پر عملدرآمد روک دیا ہے بینچ نے سپریم کورٹ پروسیجرل بل کے حوالے سے تحریری حکم جاری کر دیا ہے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم مقدمہ ہے جس میں عدلیہ کی آزادی کا نکتہ اٹھایا گیا ہے وہ پارلیمنٹ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں تاہم عدالت اس قانون کا جائزہ لینا چاہتی ہے 8رکنی بینچ نے سماعت کے بعد تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ملک میں اِس وقت عجیب کشمکش جاری ہے، جانے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے، ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے اور یہاں اربابِ اختیارملک کو پیچھے کی طرف دھکیلنے پر تلے ہیں۔جب سات سال بعد ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں، ایک ہی ملک میں رہنے والے سیاست دان تمام گلے شکوے ایک طرف رکھ کر ملک و قوم کی سا لمیت کی خاطر آگے کیوں نہیں بڑھ سکتے۔ ابھی بھی وقت ہے حالات سنبھالے جا سکتے ہیں، معاملات طے کیے جا سکتے ہیں،الجھنیں سلجھائی جا سکتی ہیں۔ آئین اور قانون کا احترام کریں، مذاکرات کا راستہ اپنائیں، عوام کو ”پُتلی“سمجھنے کے بجائے اُس کی فلاح و بہبود کو مقدم جانیں۔ ملکی مفادات ہر چیز سے بالا تر ہونے چاہئیں۔