ایک کتاب جو سرہانے دھری رہ گئی۔۔۔”مور اتم بن جیارا اُداس“
مصنف: زاہد مسعود
قسط:25
ڈیڑ ھ برس پہلے ریڈیو کی سیڑھیوں میں نسرین انجم بھٹی ملیں۔ شام کا وقت تھا، چہرہ بجھا ہوا، کمزور سی آواز میں، ناصر بلوچ کیا حال ہے۔میں نے کہا پرانی کتابوں میں ایک کتاب ملی، وہ جو آپ دوستوں نے مل کر لکھی تھی۔ اس میں آپ کی تحریر دوبارہ پڑھی اور سرہانے رکھ دی، بولیں ارے وہ تو میرے پاس بھی نہیں، وہ سنولاﺅدوبارہ چھاپتے ہیں۔ میں نے کہا آئندہ ملاقات میں لیتا آﺅں گا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ ماہ بعد کسی نے کہا نسرین بہت بیمار ہے، تو مجھے وہ سیڑھیوں کی شام اورنسرین کا چہرہ یاد آیا۔ سوچا جا کے خیریت دریافت کریں گے۔ پھر وہی بات کہ بہت دیر کر دیتا ہوں پھر اب یہ خبر آئی کہ خاک میں کیا صورت تھی کہ پنہاں ہو گئی۔ وہی کتاب اٹھائی اب نسرین بول رہی تھی۔
”زندگی ایک تجربہ ہے۔ موت بھی ایک تجربہ ہے جو وقت سے حاصل ہوتا ہے اور وقت امر ہے پس جو ایک بار جیا وہ مرتا نہیں بلکہ موت جیتا ہے۔ وہ موت کا تجربہ کرتا ہے۔ اس ”وہ“ کی بھی تخصیص ہے۔ یعنی روح اور جسم، کچھ لوگ جسم میں جیتے ہیں اور کچھ روح میں، نہیں زیادہ لوگ جسم میں جیتے ہیں اور بہت کم روح میں، استاد امانت علی خان ان بہت کم میں سے ایک ہیں۔ پس امانت علی خان سے مراد شخص امانت علی نہیں تاریخ ہے، ہسٹری ہے، عہد ہے، زمانہ ہے۔“
یہ تحریر تھی ان کی فروری 1976ءمیں شائع ہونے والی اس کتاب سے جس کا عنوان تھا ”مور اتم بن جیارا اُداس“ جو امانت علی خان کی یاد میں شائع ہوئی تھی۔ اس تحریر میں امانت علی خان کی جگہ نسرین انجم بھٹی پڑھ لیا جائے تو ایک ہی بات ہے۔ وہ کتاب جو اسے دینی تھی اب بھی سرہانے رکھی ہے۔ ہماری زندگی کی بیشتر کتابیں سرہانے ہی دھری رہ جاتی ہیں او رہم چلے جاتے ہیں ۔نسرین کے الفاظ کے پس منظر میں ایک یہ آواز آپ کو بھی سنائی دے رہی ہو گی
کاگا سب تن کھائیو، چُن چُن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو، انہیں پیا ملن کی آس
کب آﺅ گے، موراتم بن جیارا اداس، کب آﺅ گے
نسرین کی اردو نظموں کی کتاب ” بن باس“ ہجرت والی بن باس نہیں ہے۔ یہ باس اس کی اپنی ذات اور اس کے گرد اُگے جنگل کی مہک ہے۔ اور اس مہک نے اردو نظم میں ایک ایسا منفرد تخلیقی دائرہ کھینچ دیا ہے۔ جہاں مروجہ اردو نظم کی پہنچ نہیں ہے۔ وہ اپنے اس اسلوب کی موجد بھی ہے اور خاتم بھی۔ اس کی نظم ’بن باس‘ میں سے چند لائنیں۔
”ہوا کے پاﺅں نہیں ہوتے
پھر بھی وہ چلتی ہے تو آہٹ ہوتی ہے
ریت پر نشاں بنتے ہیں
اور سانس کے آنے جانے اور ٹھہرنے کا علم بھی
یہ باتیں مگر کتنی اداس کرتی ہیں
خدا کی ایک بھی بیٹی ہوتی
تو وہ جنگل کی بیٹی ہوتی
مٹی کے کھلونے رنگتی
اور ہرن کے سینگوں پر دیئے جلاتی
ان کی پنجابی نظموں کے مجموعے ”نیل کرائیاں نیلکاں“ میں5 لائنوں کی ایک نظم بلاعنوان ہے۔
”اُڈ میرے من دیا طوطیا
میرے ہتھاں ولوں نہ دیکھ
میریاں اکھاں اندر جھاتی مار
فیر خبرے اسیں دو ویں
کٹھے ای اُڈ چلیئے“
اور شاید اس نظم کا عنوان وہ ہمارے لیے چھوڑ گئی۔ اب ہم اسے وصل کہیں یا وچھوڑا؟ جیسا جس کے جو من میں آئے۔
ڈاکٹر ناصر بلوچ
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )