غلام محمد کی آزادی....اور حاجی لال کی انارکلی
چودھری محمد علی کا خیال، قلم اور دوات کے مرحلے سے گزرا تو لفظ پاکستان کاغذوں پر منتقل ہوتے ہی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لبوں پر آگیا۔ خوش نصیب ہیں وہ آنکھیں جنہوں نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کے وجود کو بنتے اور چمکتے ہوئے دیکھا۔۔ایسا ہی ایک نام بابے غلام محمد کا ہے، جس نے گورداس پور سے لاہور کا سفر کیا اور پاکستان کے لئے لازوال قربانیوں کو اپنی نظر سے دیکھا۔آج بابا جی زندگی کی نودہائیاں گزارچکے ہیں، وہ دریائے چناب کے کنارے ایک چھوٹے سے گاو¿ں میں رہتے ہیں۔ دن کا زیادہ تر وقت وہ دریائے چناب کے ٹھنڈے پانی کے سامنے ایک جھونپڑی میں گزارتے ہیں۔
مَیں جب بھی گاو¿ں جاتا ہوں تو بابا جی سے ضرور ملتا ہوں اور مجھے بابا جی دیکھتے ہی ہمیشہ یہ پوچھتے ہیں کہ مینار پاکستان کا کیا حال ہے؟ دوسری بات یہ پوچھتے ہیں کہ واہگہ بارڈر پر شام کو جو پریڈ کا منظر ہوتا ہے، وہ کیسا ہے؟ ان کی بڑی خواہش ہے کہ وہ سرحد پر پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے ہوئے سنےں، کیونکہ جب وہ بھارت سے لٹے پٹے واپس آئے تھے تو واہگہ بارڈر پر اسی نعرے نے ان کے وجود میں زندگی کی ساری نعمتیں لوٹا دی تھیں۔ باباجی زندگی میں صرف ایک بار چالیس سال پہلے لاہور آئے تھے۔ لاہور آنے کے اس واقعے کو وہ ہمیشہ مزے لے لے کر سناتے ہیں۔
باباجی کا کہنا ہے کہ چالیس سال پہلے وہ اپنے دوست، گاو¿ں کے چودھری حاجی لال کے ساتھ ہائیکورٹ میں ایک مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں لاہور آئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ حاجی لال بڑے مضبوط خدوخال کا مالک تھا، اس زمانے میں دوکلو دیسی گھی پی جانا اس کے لئے معمولی بات تھی۔حاجی صاحب نے ایک مرتبہ بھینس کو مکا مار کر مار دیا تھا اوردل کے اتنے نرم تھے کہ چھت کے اندر چڑیوں نے گھونسلہ بنا لیا تو ڈرنے لگے۔حاجی صاحب کے ساتھ ہائیکورٹ میں پیشی سے فارغ ہوئے تومَیںنے کہاکہ حاجی صاحب اب مینار پاکستان چلنا ہے۔ مَیں نے وہ مقام دیکھنا ہے، جہاں میرے قائد نے مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔۔۔مَیں نے اس مٹی کو چومنا ہے، جہاں میرے قائد کے پاو¿ں لگے تھے۔
مال روڈ سے ہوتے ہوئے جب ہم انارکلی کے پاس پہنچے تو حاجی لال مجھے لے کر انارکلی میں داخل ہوگیا۔پھر کیا تھا ۔۔؟ انارکلی کی رونقیں حاجی صاحب کی کمزوری بن گئیں۔ بنی سنوری خواتین جس بے باکی سے بازار میں پھر رہی تھیں،حاجی صاحب جن کی جوانی اس وقت عروج پر تھی، کچھ زیادہ ہی اس کے رنگوں میں ڈوب گئے اور میری یاد دہانیوں کے باوجود شام تک اسی بازار میں گھومتے رہے۔ بڑی مشکل سے نماز مغرب تک ہم منٹوپارک پہنچے۔بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی دیواروں کے سامنے آزادی کی اس علامت نے میرے رونگھٹے کھڑے کر دیئے۔۔۔یہ منظر میری یادوں کو مہکا رہا تھا کہ اندھیرے بڑھنے لگے اور مینار پاکستان کے بالائی حصے میں روشنیاں جگمگا اُٹھیں۔ حاجی صاحب نے لاری اڈے کی طرف سے آنے والی بس پر مجھے بٹھایا اورہم دریائے راوی کو پار گئے۔راستے میں حاجی صاحب باربار یہ کہتے رہے کہ یار اگلی پیشی تھوڑی جلدی ہونی چاہیے تھی۔ مجھے اس بات کی سمجھ آرہی تھی کہ حاجی صاحب اگلی پیشی کے لئے مضطرب کیوں ہیں؟اصل میں وہ جلد سے جلد انارکلی کا دوبارہ نظارہ کرنا چاہتے تھے۔ساتھ میرا دل رکھنے کے لئے یہ بھی کہتے تھے کہ فکر نہ کرو اگلی بار آئے تو تمہیں واہگہ بارڈر کی پریڈ بھی ضرور دکھاو¿ں گا۔
واپس گاو¿ں پہنچے تو حاجی صاحب دل پر قابو نہ رکھ سکے اور اپنی حاجن کو جذباتی انداز میں بتادیا کہ خواتین تو انارکلی بازار لاہور میں دیکھی ہیں۔۔۔ تمہارے ساتھ تو بس عمر ہی ضائع کررہے ہیں۔یہی غلطی حاجی صاحب کو لے ڈوبی اور حاجن نے دوٹوک فیصلہ سنا دیا کہ مقدمہ بھاڑمیں جائے، آج کے بعد حاجی لاہور نہیں جائے گا۔بس اس کے بعد میرے اور حاجی صاحب کے دل میں لاہور جانے کی حسرت ہی رہی۔ حاجی صاحب انارکلی کی رونقوں کو یاد کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے اور مَیں نے زندگی کے دنوں کو مکمل کرنے کے لئے دریا کنارے اپنی دنیا آباد کرلی۔
بابا غلام محمد اپنے زمانے کا میٹرک پاس ہے اور اس دور کا میڑک پاس آج کے سکالر سے بہت بہتر ہے۔ باباجی پرانے زمانے کے بندے ہیں، لیکن نئی باتوں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ شام کو گاو¿ںجاتے ہیں اور کیبل پر حالات حاضرہ کے پروگرام دیکھتے ہیں۔اس مرتبہ میں گاو¿ں گیا تو بابا غلام محمد کے چہرے پر عجیب خوشی تھی۔ کہنے لگے کہ اس بار کئی سال بعد چودہ اگست کا دن رمضان المبارک میں آرہا ہے ۔بس احساسات کا وہی سلسلہ چل نکلا ہے، جب 65سال پہلے پاکستان بنا تھا تو رمضان المبارک کے مقدس دن تھے۔پتہ نہیں کیا خیال آیا کہ میرے منہ سے نکل گیا کہ باباجی کس پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ جو مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کا مستقبل کیا ہے؟ باباجی نے میری طرف دیکھا اوربولے کہ اس بات کو ابھی چھوڑو، یہ بتاو¿ کہ خط کا معاملہ کیا ہے۔ ایک وزیراعظم آرہا ہے تو دوسرا جارہا ہے۔مَیں نے اپنی انتہائی محتاط دانائی سے باباجی کو بتایاکہ سادہ سی بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے رہنماو¿ں کے ساتھ وفاداری کرے گی اور آئین اور پارٹی وابستگی کے حوالے سے ان کا اپنا ایک مو¿قف ہے۔ دوسرے طرف عدلیہ قانون کی بالادستی چاہتی ہے اور ان کا خیال ہے کہ انصاف سب کے لئے برابرہے۔ باباجی نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور بولے، یہی سب مسائل کی وجہ ہے۔ قوم کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھایا جارہا ہے۔ اصل مسائل پر توجہ نہیں اور معمولی معاملات کو ہواّ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ سارا میڈیادن رات خط لکھنے اور نہ لکھنے میں الجھا ہوا ہے۔ حکومت خط نہ لکھنے کے حوالے سے اپنے مو¿قف پر قائم ہے تو اپوزیشن اس صورت حال سے اپنے سیاسی مفاد کو مضبوط بنارہی ہے۔
مسئلہ کیا ہے؟ مصیبت کیا ہے؟ باباجی کی آنکھوں میں غصہ نمایا ں ہونے لگا اور ان کی آواز میں آہستہ آہستہ گرج آنے لگی۔کہنے لگے، مجھ جیسا انسان، جس نے ساری زندگی دیہات میں گزاری۔ مَیں عام سے لوگوں سے ملتا ہوں ۔۔اور اس کا حل تو ایک عام فہم آدمی بھی بتا رہاہے۔بی بی اب اس دنیامیں نہیں ۔۔۔شہید ہوچکی ہیں۔ ۔اور لاشوںکو تو دنیا کی کوئی قوم پامال نہیں کرتی، وہ تو پھر شہیدہے اور آصف علی زرداری آئینی طریقے سے ملک کے آئینی سربراہ ہیں۔ جب تک وہ آئین کے دائرے میں ہیں، ان کا احترام کیا جائے، جب وہ اس دائرے سے نکل جائیں گے ۔۔۔پھر جو قانون کہتا ہے۔ یہ کیا ہوگیا ہے َ؟ کیوں ہم میں سے ہرشخص پاکستان کا ٹھیکیدار بن گیا ہے۔ پاکستان سب کا ہے ۔ مجھے لگا کہ بابا جی کچھ زیادہ ہی آزاد ہورہے ہیں ۔ ان کی کھری باتیں اورغصے کی حالت دیکھتے ہوئے مَیں نے ان کی جھونپڑی سے نکل جانا مناسب سمجھا، کیونکہ ایک سرکاری بندہ ہونے کے ناتے نہ تو مَیں عدلیہ کی توہین کا مرتکب ہوسکتا ہوں اور نہ ہی حکومت کی مخالفت مول لینے کی طاقت ہے۔
باباجی کی باتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں اور مَیں اپنے دوست کے ہمراہ اس شہر کی طرف روانہ تھا، جہاں حاجی لال کی انارکلی بھی ہے۔ مینار پاکستان بھی ہے اور واہگہ بارڈر پر شام کو ہر روز پریڈ بھی ہوتی ہے۔ مَیں نے فیصلہ کیا کہ اس بار 14اگست کو بچوں کی بات مان لونگا اور شام کو ہم واہگہ بارڈر پر پرچم اُتارنے کی تقریب دیکھنے جائیں گے اور کوشش کروں گا کہ واہگہ بارڈر کے کسی کونے میں بیٹھ کر پریڈ کو باباغلام محمد کی آنکھوں سے دیکھوں اور ان احساسات کو سمیٹ لوں کہ پاکستان کسی ایک شخص کا نہیں، ہم سب کا ہے۔ ٭