یہ چمن یونہی رہے گا؟
ایک گاہک دکان میں داخل ہوا۔ مطلوبہ شے کی قیمت دریافت کی تو دکاندار نے بتایا صرف40 روپے جناب۔ گاہک گویا ہوا مَیں تو 20 دوں گا۔ دکاندار نے کہا چلیں ٹھیک ہے۔ گاہک نے فوراً موقف بدلا کہ10روپے۔ دکاندار نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ دس ہی دے دو۔ گاہک نے پھر پینترا بدلا، کہا صرف پانچ۔ دکاندار کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اس نے زچ ہو کر کہا کہ تم مفت ہی لے لو۔ گاہک نے کندھے اچکا کر کہا اب مَیں ایک نہیں، بلکہ دو لوں گا۔
کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ عمران خان کا کوئی مطالبہ مان بھی لیا گیا تو اس پر اکتفا نہیں کریں گے، بلکہ یو ٹرن لے کر پھر کوئی اور بات کر دیں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے ساتھ ملاقاتوں میں نوازشریف نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا برملا اظہار بھی کر دیا تھا۔ عمران خان نے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے جائزہ کے لئے وزیراعظم نوازشریف کی پیشکش مسترد کر کے پھر اسی رویے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا بالکل درست ہے کہ عمران خان پہلے کبھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی نیک نیتی کی قسمیں کھاتے تھے۔ اب موجودہ چیف جسٹس ناصرالملک کا دم بھر رہے ہیں۔ اگر کہیں موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بن گیا اور فیصلہ عمران کے حق میں نہ آیا تو وہ ان پر بھی برس پڑیں گے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے سے دور ہی رکھا جائے۔
اصل کھیل مشرف کی رہائی کا ہے یا امریکہ، انڈیا اور افغانستان سے تعلقات کا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محض دو، چار، پانچ،سات امور پر ہی اختلافات نہیں،بلکہ تنازعات کا ایک بڑا پلندہ موجود ہے۔ جیسا کہ ان سطور میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ قادری اور کپتان ایک تھے، ایک ہیں۔ وہ اس وقت تک اکٹھے چلیں گے، جب تک پس پشت قوتیں ایسا چاہیں گی۔ ذرا غور کریں تو واضح ہو جائے گا کہ دونوں مشترکہ کی بھاشا میں گفتگو کر رہے ہیں۔ بیانات میں بے تحاشا مبالغہ اور شریف برادران پر لعن طعن کرنے کے لئے مخصوص الفاظ کا استعمال دونوں کا مشترکہ طرہ امتیا زبن چکا ہے۔ حکومتی حلقوں کے علاوہ بعض تجزیہ کاروں کی رائے بھی ہے کہ اس تمام سیاسی بحران کے پیچھے کوئی انٹرنیشنل ایجنڈا موجود ہے۔ یہ بات جزوی طور پر ہی درست ہو سکتی ہے، کیونکہ اگر ان دونوں کے پیچھے مقامی قوتیں نہ ہوتیں تو چودھری برادران اور شیخ رشید وغیرہ وغیرہ یوں نہ اچھلتے۔ چودھری برادران کہاں کے جری اور شیخ رشید کہاں کے مرد میدان؟ ان کو ترغیب دلانے والی پس پردہ قوتیں (جو ایسی پس پردہ بھی نہیں) خالصتاً مقامی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو دھمکیاں انہی کے بل بوتے پر دی جا رہی ہیں۔ عمران خان نے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے کا مطالبہ کر کے صورت حال اور بھی واضح کر دی ہے۔ نوازشریف سے نالاں ملکی اور عالمی قوتیں اب دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی دباﺅ ڈالیں گی اور انہیں ترغیب دیں گی کہ وہ حکومت کو متنازعہ بنانے کے لئے کھل کر سامنے آئیں۔ اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر بعض سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حمایت کا یقین دلا سکتی ہیں۔ درستگی ریکارڈ کے لئے عرض ہے کہ طاہرالقادری نے کنٹینر ڈرامہ الیکشن ملتوی کرانے کے لئے لگایا تھا۔ وہ کامیاب ہوتے تو پیپلزپارٹی کی مدت اقتدار بڑھ سکتی تھی تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ طاہرالقادری قائد تحریک الطاف حسین کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی والوں کے لئے بھی خاصی حد تک قابل قبول ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں مستعفی نہ ہونے کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ان کے اصل مخاطب عمران خان یا دیگر مخالف سیاستدان نہیں تھے، بلکہ اسٹیبلشمنٹ تھی۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ان سے 1999ءمیں بھی استعفا لینے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ 1999ءکی فوجی بغاوت کے وقت ایوان وزیراعظم میں موجود ایک صحافی کی زبانی کارروائی کے دوران کمانڈوز کچھ اس انداز میں اندر گھسے کہ سب ہکابکا رہ گئے۔ جدید اسلحہ تانے ہوئے فوجی کمانڈوز کو دیکھ کر وزیراعظم ہاﺅس میں موجود بعض افراد نے آنکھیں بند کر کے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا۔ انہیں اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ پھر ایسے ہی ماحول میں جرنیلوں کی آمد ہوئی اور وزیراعظم سے کہا گیا کہ وہ استعفا دیں، مگر وہ نہیں مانے۔ چنانچہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر جیپ میں ڈال کر نامعلوم مقام کی طرف بھجوا دیا گیا۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے حوالے سے میڈیا سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی اپیل بھی دراصل اسٹیبلشمنٹ کے حامی صحافتی عناصر کے لئے ہے۔ حکومت کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ آزاد میڈیا کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کئی مہرے مختلف چینلوں اور اخبارات میں متحرک کر رکھے ہیں۔ وزیراعظم کے لہجے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ سول حکومت کسی صورت اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ حالات روٹین کے مطابق ہوتے تو شاید پولیس کو استعمال کر کے عوامی تحریک کیا، تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی تھی۔ خطرناک بات لیکن یہ ہے کہ احتجاج کرنے والی جماعتوں کو بھی کئی جانب سے ہلاشیری مل رہی ہے۔ ان حالات میں تشدد کی لہر کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا استعمال لاہور ہی نہیں اسلام آباد میں بھی ہو سکتا ہے۔ شیخ رشید جیسے سیاست دان کارکنوں کا مورال بلند کرنے کے لئے یا پھر کسی مخصوص منصوبہ بندی کے تحت باربار کہہ رہے ہیں کہ فوج عوام پر گولی نہیں چلائے گی۔ ایسی بات کرنا بے حد خطرناک ہے۔ سب کو علم ہونا چاہئے کہ وفاقی دارالحکومت کا ریڈزون فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران خدانخواستہ کسی نے ریڈزون میں گھس کر سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو گولی نہ چلنے کی ہرگز کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
تمام حقائق جاننے کے باوجود صلح صفائی کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنے والی جماعت اسلامی کو اب بھی امید ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران ہی حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ طے پا جائے گا۔ دیگر بعض عوامل کے ساتھ بیزارکر دینے والی گرمی اور دم گھٹنے والے حبس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا دھرنا کتنی دیر تک جاری رہ سکے گا؟ اسلام آباد میں میٹروبس ٹریک کے لئے جگہ جگہ کھدائی، اڑتی دھول‘ تعمیراتی سامان کی صورت میں سامنے پڑی رکاوٹیں بھی اچھا خاصا مسئلہ ہیں۔ لانگ مارچ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو ”گائیڈ“ کرنے والے خود بیچ میں آ کر کوئی راستہ نکالیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے بغیر کسی قسم کا احتجاج کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جماعت اسلامی کی کوشش ہو گی کہ دھرنا طول پکڑنے کی صورت میں وہ خود بیچ میں آ کر فریقین میں کوئی راضی نامہ کرا دے۔ بہرحال یہ سب تو امکانی منظرنامے ہیں۔
کھلا سچ تو محض اتنا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ قرائن تو یہ بتاتے ہیں کہ انہیں ڈرادھمکا کر فارغ کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ قادری، کپتان، شیخ رشید، چودھری برادران کے ذریعے سانحہ ماڈل ٹاﺅن سمیت دیگر کئی حوالوں سے دھمکیاں دلوائی گئی تھیں۔ قذافی اور صدام کے نام لے کر خوفزدہ کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن سب بے سود رہا۔ نوازشریف مقابلے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت بن بھی گئی تو زیادہ دیر نہ چل پائے گی۔ مارشل لاءآیا تب بھی حالات شاید ہمدردانہ نہ رہیں، ایسی صورت میں نواز شریف کی جماعت تو براہ راست متاثرہ فریق ہو گی ہی، مگر خود اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی جماعتیں بھی جلدازجلد اپنا اپنا حصہ طلب کریں گی۔ اعلیٰ عدلیہ فوری طور پر حرکت میں آئے گی، بار کونسلوں سے مطالبات کا آغاز ہو گا تو سول سوسائٹی بھی پیچھے نہ رہے گی۔ آزاد میڈیا بھی بڑا درد سر بن جائے گا۔ 14اگست آ گیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ بس اتنا جان لیں کہ یہ 2014ءہے 1999ءنہیں۔ محب وطن حلقوں کی ٹھوس رائے ہے کہ موجودہ بحران کا واحد حل آئینی اور پارلیمانی حدود میں رہ کر کوئی قابل قبول حل نکالنا ہے۔ دوسری کوئی بھی صورت بحران در بحران کا منظر ہی پیش کریگی۔ حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے نہ ہو سکے ،تو قوم کو ایک مرتبہ پھروہی ”نیا پاکستان“ دیکھنے کو ملے گا جس کا وہ پہلے بھی کئی بار مشاہدہ کر چکی ہے بصورت دیگر یہ چمن یونہی رہے گا۔