پابندی، حل نہیں!
ایک موقر معاصر کی خبر کے مطابق حکومت نے پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری کے بیانات اور تقریروں کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کی جماعت پر پابندی لگانے پر غور کیا ہے اور مشورہ یہ دیا گیا کہ عوامی تحریک کے عمل اور ڈاکٹر طاہر القادری کی شعلہ بیانی پورا جواز فراہم کرتی ہے۔ اگر یہ فیصلہ ہوا اور پابندی لگی تو جماعت کے چیئرمین سمیت اہم عہدیدار اور کارکن گرفتار کئے جانے کے علاوہ اثاثے بھی ضبط کر لئے جائیں گے۔خبر بہت سنسنی خیز ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں ان میں ایسا کوئی بھی فیصلہ غلط اثرات مرتب کرے گا اور عوامی تاثر بھی تبدیل ہو جائے گا اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے عمل کو مجموعی طور پر عوام نے پسند نہیں کیا، لیکن اگر کوئی ایسی کارروائی ہوئی یا تشدد ہوا تو ان کو ہمدردیاں حاصل ہو جائیں گی اور یہ بھی حکمرانوں کے لئے بہتر نہیں ہو گا۔ اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے جو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت ہے ،جس کے لیڈروں اور جماعت والوں نے اچھے بُرے دن دیکھے ہوئے ہیں، لہٰذا سیاسی جماعت کو مسائل بھی سیاسی انداز سے حل کرنا چاہئیں، انتظامی حل نقصان دہ ہوتا ہے۔