ہائیکورٹ نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو غیر آئینی لانگ مارچ اور دھرنے سے روک دیا ،کنٹینر ز ہٹانے کا حکم
لاہور(نامہ نگار خصوصی )لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو غیر آئینی طور پر لانگ مارچ کرنے اوراسلام آباد میں دھرنا دینے سے روک دیا ہے جبکہ مسٹر جسٹس محمود احمد بھٹی کی سربراہی میں قائم ایک دوسرے فل بنچ نے پنجاب حکومت کو حکم دیا ہے کہ لانگ مارچ روکنے کے لئے لگائے گئے کنٹینرز اور رکاوٹیں فوری طور پر ہٹا لی جائیں کیونکہ یہ عام لوگوں کے لئے مشکلات کا باعث ہیں۔جسٹس محمود احمد بھٹی کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے اس سلسلے میں پنجاب حکومت کی نظر ثانی کی درخواست پربھی اپنا حکم واپس نہیں لیا تاہم نظر ثانی کی اس درخوست پر مدعا علیہان کو 18اگست کے لئے نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں ۔اس فاضل بنچ نے قرار دیا کہ عدالت پانچ یا دس ہزار بندوں کا نہیں بلکہ صوبے بھر کے عوام کا سوچ رہی ہے جو ان رکاوٹوں کے باعث اپنے حق نقل و حرکت سے محروم ہوگئے ہیں ۔جسٹس خالد محمود خان ، جسٹس شاہد حمید ڈار اور جسٹس انوارالحق پر مشتمل فل بنچ نے لانگ مارچ رکوانے کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت مکمل کر کے دوپہر کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو شام آٹھ بجے سنا دیا گیا ۔فاضل بنچ نے قرار دیا ہے کہ یوم آزادی کی حساسیت اور غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے تحریک انصاف کے دھرنے کے لئے متبادل جگہ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی تاہم عمران خان کے وکیل نے یہ پیشکش مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ انہیں زیرو پوائنٹ سے کشمیر پوائنٹ تک دھرنے کے لئے جگہ فراہم کی جائے ۔فاضل بنچ نے قرار دیا تھا کہ عدالت فریقین کی رضامندی اور افہام وتفہیم سے معاملہ حل کرنا چاہتی تھی تاہم اب عدالت اپنا حکم سنائے گی ۔دوران سماعت فاضل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیراعظم سے زبردستی استعفا لیا جاسکتا ہے جبکہ آئین میں وزیراعظم کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کا طریقہ کار موجود ہے ۔فاضل بنچ نے یہ بھی کہا کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو تسلیم نہ کرنا کیا توہین عدالت نہیں ؟فاضل بنچ نے دوران سماعت قرار دیا کہ پاکستان کو مصر بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔اسلام آباد اور تحریک اسکوائر میں بہت فرق ہے ۔مصر میں تو حسنی مبارک واحد صدارتی امیدوار ہوا کرتے تھے پاکستان میں پورا انتخابی سسٹم موجود ہے ایک موقع پر فاضل بنچ نے تحریک انصاف کے وکیل احمد اویس سے یہ استفسار بھی کیا تھا کہ کیا پی ٹی آئی کے جماعتی انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی تھی ۔دوران سماعت فاضل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ احتجاج ضرور کریں مگر اسے وزیراعظم کو ہٹانے اور پارلیمنٹ ختم کرنے سے مشروط نہ کیا جائے۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت آزادی مارچ کو روکنے کا حتمی حکم جاری کرے۔حکومت کا آدھا بجٹ اس وقت حفاظتی اور انتظامی معاملات پرخرچ ہو رہا ہے۔تحریک انصاف مصر کی طرح ملک میں خون خرابہ کرنا چاہتی ہے۔عدالت کے حکم پر وزیر اعظم کے گزشتہ روز قوم سے ہونے والی تقریر اور عمران خان کے نجی چینل پر نشر ہونے والے انٹرویو کو پروجیکٹر کے ذریعے فل بینچ کو دکھایا گیا۔احمد اویس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انکی عمران خان سے بات ہوئی ہے، بیان حلفی دینے کو تیار ہیں کہ زیرو پوائنٹ سے کشمیر چوک تک جانے دیا جائے آزادی مارچ میں امن و امان کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔جعلی مینڈیٹ سے آنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کر تے وزیر اعظم کے استعفا کے بغیر شفاف انکوائری ممکن نہیں ہے۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ راولپنڈی یا اسلام آباد کے سپورٹس سٹیڈیم تک جانے کی اجازت دے دی جائے۔جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے تسلیم نہیں کیا جاتا یہ سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کے مترادف ہے۔بینچ کے فاضل رکن جسٹس شاہد حمید ڈار نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کو وزیر اعظم پر اعتماد نہیں تو اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کیوں نہیں لاتے،ایک طرف آپ آزادی مارچ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اسمبلیوں سے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں مگر استعفے تک دینے کو تیار نہیں ہیں۔مصر میں بھی آزادی مارچ والے تحریر چوک کو اب خونی چوک کے نام سے یادکیاجاتا ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر عمران خان کو اسلام آباد میںمخصوص مقام پراحتجاج کے لئے دس یوم دےکر پولیس کو کارروائی سے روک دیا جائے تو کیاوہ اس پیش کش سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔عدالت نے عمران خان کے وکیل کو ہدایات لےکرعدالت میںدوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے ان حالات میں آزادی مارچ ملکی سلامتی کو داو پر لگا سکتا ہے۔عمران خان نے وزیر اعظم کے خطاب کے بعدمیڈیا سے گفتگو میں باغیانہ خیالات کا اظہار کیا،تحریک انصاف کسی الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ پر یقین نہیں رکھتی۔عمران خان کہتے ہیں جو میں کہتا ہوں بس وہی ٹھیک ہے۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ لندن میں ہائیڈپارک میں لوگ احتجاج کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت آزادی مارچ کے شرکاءکولاہور یا راولپنڈی کے کسی سٹیڈیم میں جگہ فراہم کر سکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے تحریک انصاف نے حکومت کو کوئی درخواست نہیں دی۔بینچ کے فاضل رکن جسٹس شاہد حمید ڈار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریرمیں کمیشن بنانے کی اتنی بڑی پیش کش کی اس سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔عمران خان کے وکیل احمد اویس نے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت جب تک موجود ہے کسی کمیشن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔جسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ عمران خان یہ تو بتائیں کہ اسلام آباد میں کتنے دن اور کہاں پڑاﺅ کرنا ہے۔ وکلاءکے دلائل کے بعد عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا بعدازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے مذکورہ سیاسی جماعتوں کوآزادی یا انقلاب مارچ کے علاوہ دھرنا کے لئے غیر آئینی راستہ اختیار کرنے سے بھی روک دیا ۔دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمود احمد بھٹی کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے صوبہ بھر میں لگائے گئے کنٹینرزفوری طور پر ہٹانے،پٹرول کی سپلائی بحال کرنے اورسیاسی کارکنوں کوگرفتار کرنے سے روک دیا۔فل بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مجھے کب نافذ کیا جائےگا،ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر شہریوں کے حقوق کیسے سلب کئے جا سکتے ہیں۔آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے کنٹینر لگانے کا حکم دیا نہ ہی انہیں علم ہے کہ صوبہ بھر میں کتنے کنٹینرز رکھے گئے۔عدالتی حکم پر سی سی پی او نے سکیورٹی پلان عدالت میں پیش کیا۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حنیف کھٹانہ نے کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹس کی روشنی میں کنٹینرز لگائے گئے،عمران خان حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسے آئی جی پنجاب کے لگانے کا کیا فائدہ جس کے پاس معلومات کا فقدان ہے اور جس کا اپنے ہی ادارے کے ماتحت افسران سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔محض مفروضوں کی بنیاد پر غمی خوشی،ہسپتالوں اور کام پرجانے والے عام شہریوں کو روک دیا گیا،شہری کنٹینرز کے نیچے سے رینگ رینگ کر گزرنے پر مجبور کر دئیے گئے۔اگر چیف ایگزیکٹو کہہ رہا ہے کہ پر امن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے تو پھرآپ سب کو کیا مسئلہ ہے۔کفر سے حکومت چل سکتی ہے جبر سے نہیں چل سکتی۔آئین پاکستان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مجھے کب نافذ کیا جائے گا،ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر کیسے بنیادی حقوق سلب کئے جا سکتے ہیں۔عدالت کے فل بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے صوبہ بھر میں لگائے گئے کنٹینرز فوری طور پر ہٹانے،پیٹرول کی سپلائی بحال کرنے اورسیاسی کارکنوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔بعدازاں پنجاب حکومت نے کنٹینرز ہٹانے سے متعلق مسٹر جسٹس محمود احمد بھٹی کی سربراہی میں قائم فل بنچ کے حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی جس پر عدالت نے فریقین کو 18اگست کے لیے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔حکومت پنجاب کی جانب سے نظر ثانی کی اپیل لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے مگر عمران خان آزادی مارچ کر کے امن و امان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ عمران خان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی بناءپرشہریوں کی جان و مال کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں مگر اسکے باوجود عدالت عالیہ کے فل بنچ نے سڑکوں پر کھڑی رکاوٹیں اور کنٹینرز ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔عدالت عالیہ کو سکیورٹی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے کنٹینرز اوررکاوٹیں لگائی گئیں لہذا عدالت فل بنچ کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔