حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کاتاریخی بیان (1)

حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کاتاریخی بیان (1)
 حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کاتاریخی بیان (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کایہ تاریخی بیان پٹنہ اجلاس میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے پڑھ کرسنایا، ا حقر باوجود اپنی ہر نوع کی ناہلیت کے محض محبت وخیر خواہی سے سب مسلمانوں کی خدمت میں عموما اور حضرات اہل لیگ کی خدمت میں خصوصا عرض کرتاہے کہ اس وقت بوجہ خاص انقلاب کے جس چیز کی مسلمانوں کوسخت ضرورت ہے وہ اجتماع اور تنظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرات اہل لیگ کے لئے دعاکرتاہوں کہ انہوں نے اس کا احساس کرکے اس کا انتظام دل وجان سے شروع کیا اور میں نے اس سے قبل بھی اس کااستحسان واہمیت ظاہرکرنے کے لئے تنظیم المسلمین کے نام سے ایک مضمون شائع کیا ہے اور اس پر جہاں تک معلوم ہواہے ،بفضلہ تعالیٰ ثمرہ مطلوبہ بھی ایک کافی درجہ میں مرتب ہوا لیکن جس پیمانہ پرجی چاہتاتھا ابھی اس کاانتظار ہے۔ حضرات اس وقت مسلمانان ہندوستان جس دور سے گزررہے ہیں اور جن مشکلات کاان کوسامناہورہاہے باخبر طبقہ اس سے بخوبی واقف ہے اور خدا کا شکر ہے کہ عام مسلمانوں کے احساسات اس وقت بیدار ہوچکے ہیں۔ ان مشکلات کامقابلہ کرنے لئے اپنی فہم وفراست کے موافق مدبران لیگ نے کچھ اسباب بھی اختیار کئے ہیں اور مقام مسرت ہے کہ وہ ان اسباب میں کامیاب بھی ہورہے ہیں جو اس کی دلیل ہے کہ ان کاپہلاقدم صحیح راستہ پرپڑا ہے غلط راستہ پر نہیں چلا، میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کا پہلاقدم اتفاقا صحیح راستہ پرپڑگیاہو اس کے لئے آپ مستحق صدمبارک بادہیں۔


پہلاقدم مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم
آپ کایہ پہلاقدم مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم ہے جس کی سخت ضرورت تھی اور اس کی ضرورت سے کسی عاقل کو انکار نہیں ہوسکتا کیونکہ عقلاً ونقلاً یہ مسئلہ اپنی جگہ پرثابت ہوچکا ہے کہ جوقوم اپنی مستقل تنظیم نہ رکھتی ہووہ دنیامیں باقی نہیں رہ سکتی بلکہ دوسری اقوام میں منضم اور منجذب ہوکر کالعدم ہوجاتی ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ مسلمانوں کی مستقل تنظیم کی یہی صورت ہے کہ تمام مسلمان اسلامی جھنڈے کے نیچے جمع ہوجائیں کیونکہ غیراسلامی جھنڈ ے کے نیچے صرف مشترکہ تنظیم ہی ہوسکتی ہے مسلمانوں کی مستقل تنظیم نہیں ہوسکتی ، اور مشترکہ تنظیم کانفع ہمیشہ اکثر یت کو پہنچتاہے ، اقلیت کو اس سے کچھ نفع نہیں ہوسکتا اگروہ اپنی مستقل تنظیم سے محروم ہو، پس مدبران لیگ نے بڑی دانشمندی سے کام لیا کہ مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کااہتمام کیاکہ اس کے بعد ہی مشترک تنظیم سے ان کو نفع ہوسکتاہے ورنہ وہ ہمیشہ دوسروں کے حاشیہ بردار ہوکر ان کے رحم وکرم پررہ جاتے ہیں اور کچھ دنو ں ان کی ہستی فنا ہوجاتی ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف آیت کریمہ میں لفظ جندناسے اشارہ کیاگیاکیونکہ جند لشکر کو کہتے ہیں اور لشکراجتماعی شان سے بنتاہے ۔ انفرادی حالت میں کسی قوم کی خواہ وہ کتنی ہی شمار رکھتی ہولشکر نہیں کہاجاسکتااور اللہ کا لشکر وہی ہوسکتاہے جو اللہ کے نام پر منظم ہووطن پرستی کے نام پر منظم نہ ہواہو ۔


یہ پہلاقدم تھاجو مسلم لیگ نے صحیح اٹھایا، اس کے بعد ایک قدم آگے بڑھانے کی اور ضرورت ہے جس کے بعد کامیابی اور غلبہ کا سہرا آپ کے سر ہوگا خدا کرے آپ کایہ دوسراقدم بھی صحیح راستہ پر ہواور اگر آپ نے قرآن کریم کی ہدایات اور سیدنارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اپنے سامنے رکھااور اسی کو مشعل راہ بنایا تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دوسرے قدم پرغلطی سے دوچار ہوں ۔ مسلمانوں کو کسی کے اتباع یاتقلید کی ضرورت نہیں ان کے گھرمیں وہ سب دولتیں جمع ہیں جن میں فلاح اور کامیابی ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمان دوسری قوموں کی تقلید کرکے ترقی کرناچاہتے ہیں۔ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرکے ترقی کرنانہیں چاہتے ہیں حالانکہ دوسری قوموں کے ذرائع ترقی سے کفار کو اور کفر ہی کو ترقی ہوسکتی ہے مسلمانوں اور اسلام کوترقی نہیں ہوسکتی ۔ اگر مسلمان ،مسلمان رہ کر اسلامی ترقی چاہتے ہیں تو ان کو اپنے ماضی کی طرف لوٹناچاہیے اور قرآن کریم اور اسوہ نبویہ کومشعل راہ بنانا چاہیے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں واِنّ جند نالھم الغٰلِبون یقیناًہمارا لشکر ہی ہمیشہ غالب رہتاہے یہ اللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے اور نہایت مستحکم وعدہ ہے جوکبھی خلاف نہیں ہوسکتاتاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کالشکر ہی ہمیشہ غالب رہاہے وہ کسی سے کبھی مغلوب نہیں ہوا اور کبھی اگر اس کے خلاف ہواتو اس کاسبب صرف یہی تھا کہ اس لشکر کے خدائی ہونے میں کچھ کسر تھی۔


دوسرا قدم یہ ہے کہ مسلم لیگ اللہ کالشکر بن جائے
پس مسلم لیگ کو دوسرا قدم اس طرح اٹھاناچاہیے کہ اس لشکر کو جسے اس نے اللہ کے نام پر منظم کیاہے صحیح معنوں میں اللہ کالشکر بنادے اس کے بعد یقیناًوہی غالب اور وہی فتح مند ہوگی اور اس کے سر کامیابی کاسہراہوگا، حضرات آپ نے ترقی کے بہت سے اسباب سنے ہوں گے۔ بہت سے ذرائع سوچے ہوں گے، بہت سے راستے اختیار کئے ہوں گے ذرااس راستہ کو آزمالیجئے جس کاتجربہ آپ کے اسلاف نے ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک کیاہے اور تاریخ شاہد ہے کہ جب تک وہ اس راستہ پر قائم رہے ہمیشہ غالب و کامیاب رہے اور جس دن اس راہ سے ہٹے اسی وقت سے زوال اور پستی ان کے سامنے آلگی یہاں تک کہ نوبت اس حالت کو پہنچ گئی جوہمارے اور آپ کے سامنے ہے تو کیا اب بھی ہم کو اپنے ماضی کی طرف لوٹنے میں کسی دوسری حالت کاانتظار ہے ۔للہ اپنے حال پر رحم کریں اور اس سے زیادہ اپنے کو تختۂ مشق نہ بنائیں ۔


اللہ کا لشکر کیوں کربنتاہے
اس کے بعد مجھے بتائیے کہ صحیح معنوں میں اللہ کالشکر کیونکر بنتاہے، حضرات اس کے لئے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس لشکر کاہر فرد جس طرح زبان سے اللہ اکبر کہتاہے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑاجانتاہو ، اللہ کابول بالاکرے اور اسے راضی کرنے کے سوا کسی دوسرے چیز کاطالب نہ ہو ، خود پسند ی جاہ پسند ی ، نام اور عزت کاطالب نہ ہونہ کسی عہد ہ کاخواہش مند ہوہر شخص خواہ وہ صدر ہو یا نائب صدر قائد ہو یاسائق اپنے کو اللہ کے لشکر کاسپاہی سمجھتا ہو اور جوکام اس کے سپر د کر دیا جائے اس پر راضی ہو ، حضرت خالد بن ولیدؓ کوایک وقت تمام عساکر اسلامیہ کاقائد بنادیاجاتاہے تو اس عہد ہ کے فرائض بخوبی انجام دیتے ہیں دوسرے وقت اس منصب سے معزول کرکے سپاہی بنادیئے جاتے ہیں تو پہلے سے زیادہ اسلام کی خدمت کاحق ادا کرتے ہیں۔
دوسری شرط : یہ ہے کہ یہ لشکر اشدآء علی الکفار رحماء بینھم ،کامصداق ہو ۔ آپس میں مہر بان ہمدرد ہوں اور کافروں کے مقابلہ میں سخت ہوں ، اس لشکر کاکوئی فرد نہ انگریز پر ست ہو نہ ہندو پرست ،نہ ہواپرست بلکہ خداپرست ہو۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -