ستر برس کے بعد

ستر برس کے بعد
ستر برس کے بعد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اپنے قیام کے ستر برس کے بعد بھی آپ کا وطن کہاں کھڑا ہے، کسی بھی نظام کی سمت طے کرنے کے لئے پانچ ،دس برس ہی کافی ہوتے ہیں، مگر یہاں تو ربع اور پھر نصف صدی گزرے بھی عشرے بیت گئے، مگر منزل تو ایک طرف رہی ہم راستے کا تعین بھی نہیں کر سکے، ہم ابھی تک جمہوریت اور آمریت کے تصورات کے درمیان حیران ، پریشان کھڑے ہیں،آزادی کے ستر برس اورآزادی کی جدوجہد شروع ہونے کے ستتر برس کے بعدبارہ اگست کی رات اس منٹوپارک سے ایک ، ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کا مقبول ترین لیڈر ہزاروں اورلاکھوں کے مجمعے کے سامنے پوچھ رہا تھا کہ اسے بھرپور عوامی مینڈیٹ رکھنے کے باوجود کیوں نکالا گیا، وہ سسٹم میں وائرس کی نشاندہی کر رہا تھا، معاشی معاشرتی اور سماجی انصاف کی عدم فراہمی کی شکایت کر رہا تھا، فوج اور عدلیہ سمیت اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کے لئے سینیٹ کے چئیرمین، جس کا تعلق اس کی اپنی پارٹی سے بھی نہیں، کی تجویز کی حمایت کر رہا تھا۔ وہ لیڈر کہہ رہا تھا کہ وہ آج چودہ اگست کو اپنے پروگرام کا اعلان کرے گا، اس پروگرام کا جس کے لئے اس نے اسلام آباد سے لاہور تک ہر چھوٹے ، بڑے شہر میں لاکھوں پرجوش کارکنوں سے حمایت کا وعدہ لیاہے۔اس منٹو پارک میں ہم نے عین جمہوری اصولوں کے مطابق برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں اپنے لئے ایک نئے وطن کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا، ہم نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیر قیادت میں محض سات برسوں میں اس منزل کو حاصل بھی کر لیا تھا۔
میاں نواز شریف کی ریلی کامیاب تھی یا ناکام، میں سوشل میڈیا کے نونہالوں اور برائلر دانشوروں کے تجزیوں پر نہیں جانا چاہتا ، بہت سارے گدھے ہیں جو زیبرے کی کھال پہننے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں، مگر آخر میں ان سے ایک زوردار ڈھینچوں نکل جاتی ہے اور ہم سب کا ہاسا، جو بندوں کو گننا چاہتے ہیں وہ گن لیں، جو اس گرمی اور حبس میں گھنٹوں سڑکوں پر خوار ہونے والوں کوبے وقوف اور کرپٹ کہنا چاہتے ہیں کہہ لیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف اب دوبارہ وزیراعظم نہیں بن سکتے وہ سمجھتے رہیں کہ ان کی بڑی اکثریت نے 12اکتوبر 99ء کو بھی کچھ ایسا ہی سمجھا تھا اور اس کے بعد ہی تو بہت سارے شیخ رشیدوں نے اپنے منہ اور راستے مارشل لائی اقتدار کی طرف کر لئے تھے۔ اس مارشل لاء کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک منتخب وزیراعظم نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک آرمی چیف کو اس کے عہدے سے الگ کر دیا تھا، بہرحال، ماضی کے دریا کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا، مجھے پوری امید تھی کہ جب سرور پیلس سے محمد نواز شریف نام کے پاکستان کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان وطن واپس لوٹیں گے تو وہ ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھیں گے۔ ہمارا سیاسی کلچر دو رخ لئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف رخ کرتے ہیں تو ہمیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کو سامنے رکھنا ہوتا ہے اور جب دوسری طرف رخ کیا جاتا ہے تو سامنے اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ایک تیسرا رخ بھی ہے جس طرف عوام کھڑے ہوتے ہیں، مگر افسوس ہم اس رخ کا صرف ذکر تو زور وشورکرتے رہے ہیں، اسے اہمیت نہیں دیتے رہے۔
مشر ف دور میں ہونے والا این آر او مسلم لیگ (ن) نے نہیں کیا تھا، وہ این آراو محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا تھا اور اپنے سمیت بہت سارے کرپٹ ساتھیوں کو بھی راستہ دلوایا تھا، نجانے وہ این آر او محترمہ کی بطور سیاستدان کامیابی تھی یا ناکامی کہ کالک سیاستدانوں کے چہروں پر ملی گئی تھی اور اٹھانوے فیصد فائدہ اٹھانے والے تاجر، صنعتکار اور ہر قسم کے بیوروکریٹ تھے۔ یہ این آر او یقینی طور پر میثاق جمہوریت کی بھی نفی تھی۔ میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر پیپلزپارٹی سے کہیں زیادہ عمل کیا، جب ان پر بار بار فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات لگ رہے تھے اور وہ ان کا دفاع کرنے میں بھی بعض اوقات ناکام ہو رہے تھے، مجھے یاد ہے کہ وہ میرے بطور صحا فی پیپلزپارٹی کے لئے نرم روئیے کے نتیجے میں سیاسی نقصان والے سوالات کا وہ بہت برا منایا کرتے تھے اور ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے صاف ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کے پاس پوچھنے کے لئے کوئی دوسری بات نہیں ہے ، ہاں، نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات کو ایک لمحے کے لئے الگ رکھیں تو یہ سچ ہے کہ آصف علی زرداری نے بھی اس میثاق کا بھرم رکھا، وہ رائے ونڈ میں اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جا کے کھڑے ہو گئے جس وقت کرائے کے دو ہجوم آئینی حکومت گرانے کی سازش کر رہے تھے اور مخدوم جاوید ہاشمی نے اس کا بھانڈا پھوڑ کر اسے ناکام بنانے میں اہم کردارا دا کیا تھا۔ مخدوم صاحب نے اس سازش کے دوسرے مرحلے کا بھی انکشاف کر دیا تھا،مگر افسوس حکمران سیاسی جماعت دوسرے ٹریپ کی نشاندہی ہونے کے باوجود حد سے بڑھی ہوئی خود اعتماد ی کے باعث اس میں پھنس گئی شائد یہ خود اعتمادی پہلے جال کو توڑ نکلنے سے ملی تھی یادی گئی تھی۔ میاں نواز شریف نے بھی میثاق جمہوریت کو سامنے رکھا، مگر ایک دو مرتبہ بھول چوک بھی ہوئی، جب میمو سکینڈل بنا تو میاں نواز شریف سیاسی الزام کو عدالت میں لے گئے، جب آصف علی زرداری نے کسی بھی اچھی یا بری وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو للکارا تو میاں نواز شریف نے ان سے ملاقات کرنے سے معذرت کر لی اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کو روس میں فون بھی کیا، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کے عہدے سے ہٹائے جانے کی مذمت بھی نہیں کی گئی تھی۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ ستر برس بہت زیادہ ہوتے ہیں، ستر برسوں میں ایک فرد اپنی طویل ترین اننگز کھیل چکا ہوتا ہے، تین سے چار نسلیں جوان ہو چکی ہوتی ہیں، مگر پاکستان کے بارے میں یوں لگتا ہے کہ وہ ستر برس بعد بھی ’’ سویٹ سکس ٹین‘‘ کے مقام پر کھڑا ہے ، اس بالی عمر میں سوچا جا رہا ہوتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہونا چاہئے، ہمیں کس طرف جانا چاہئے، ایک دو غلطیاں ہو چکی ہوتی ہیں اور کچھ مزیدحادثات ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ میاں نواز شریف نے ملنے والی فقید المثال عوامی حمایت کو ایک مرتبہ پھر وقت کے ساتھ ساتھ بہت ہی سست رو اصلاحات کے لئے استعمال کرنا چاہا توشائد دوبارہ ایسا موقع نہ ملے۔ ستر برس کے بعد اگر ووٹ کی پرچی کی توہین کو روکنے کے لئے کام کیا گیا توہمیں اس پاکستان کی منزل مل سکتی ہے جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دیکھا تھا، یہ منزل دو برس پہلے بھی آئی تھی اور اس وقت پیپلزپارٹی بھی ساتھ کھڑی تھی۔ پیپلزپارٹی نے چاہے نااہلی اور بدعنوانی میں جو بھی مقام حاصل کیا ہو، مگر اس جماعت کو پاکستان میں آئین اور جمہوریت کے لئے کام کرنے کا کریڈٹ بھی جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) کی جتنی مرضی مخالفت کرے، مگر اسے اس آئین اور پارلیمانی نظام کو بہرحال راستہ اور حمایت دینی ہو گی جس کی ٹھوس بنیاد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے رکھی تھی، پیپلزپارٹی نے اس حوالے سے ایک طویل جدوجہد کی ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں ایک مرتبہ پھر مارشل لا کے خطرات سے ڈرایا جائے گا ،کچھ لو اور کچھ دو کے تحت معاملات طے کرنے کے قیمتی مشورے بھی دئیے جائیں گے۔
میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کوہر ممکن راستہ دینے کی کوشش کی، یہ واضح ہے کہ امریکہ، افغانستان، چین اور بھارت جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی منتخب حکومت کے پاس اتنی بھی نہیں تھی کہ وہ ایک مکمل وزیر خارجہ ہی تعینات کر دیتی، یہ دیگ کا ایک دانہ ہے ورنہ پرویز رشید کی برطرفی جیسے بہت سارے دانے چکھنے کے لئے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ میں فیصلہ نہیں دے سکتا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان اعتماد کے فقدان کی اصل ذمہ داری کس پر عائد کی جا سکتی ہے مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ستر برس کے بعد یہ موقع آیا ہے کہ پاکستان کی دو مقبول ترین جماعتیں اصولوں پر تعاون کرتے ہوئے مُلک کو ویسا جمہوری اور ترقی یافتہ بنا سکتی ہیں جیسا قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سوچا تھا۔

مزید :

کالم -