وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر42
بھولو نے سر ابھارنا شروع کر دیا تھا۔ گول مٹول سا سرخ و سفید رنگت کا بھولو جب بازو پر تعویز باندھ کر اکھاڑے میں زور کرنے آتا تو امام بخش اور گاماں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ اس وقت وہ پرائمری میں پڑھ رہا تھا۔ گاماں کا پانچواں بیٹا جلال بقید حیات تھا۔وہ بھولو سے چھوٹا تھا۔ اس سے قبل تمام بیٹے فوت ہو چکے تھے۔
گاماں جلال سے حد درجہ پیار کرتا تھا۔ وہ بھی اکھاڑے میں آ جاتا۔ بھولو، جلال، اعظم اور دوسرے بچے بڑوں کے درمیان اکھاڑے میں زور کرتے تھے۔ دونوں شاہ زور ان کودیکھتے اور جی جان سے خوش ہوجاتے۔بھولو اور جلال کی طبیعت میں بڑا والہانہ پن تھا۔ دونوں میں خوب چھنتی تھی۔ البتہ بھولو قدرے شرارتی تھا اور جلال سنجیدہ مزاج بچہ تھا۔ ایک دن تو بھولو نے شرارت ہی شرارت میں اپنے سے بڑے ایک پہلوان کو للکار دیا۔ امام بخش اور گاماں اس کی تعلّی پر مسکرائے۔ وہ پہلوان کبھی امام بخش گاماں اور کبھی بھولو کی طرف دیکھ رہا تھا۔گاماں نے اسے حوصلہ دیا اور بھولو سے لڑنے کیلئے کہا۔ وہ بھولو کے مقابلے میں اترا مگر ننھے بھولو نے اسے حیرت انگیز طور پر پٹ کھینچ کر گرا دیا۔ امام بخش اور گاماں حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پھر مسرت سے اٹھ کر دونوں اکھاڑے میں گئے اور بھولو کو وارفتگی سے چومنا شروع کر دیا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بھولو تو نے یہ کیا کر دیا۔ تو نے تو حیرت انگیز کام کیا ہے‘‘۔
’’بابا جی یہ تو کچھ بھی نہیں۔ میں تو اب اس سے بھی بڑے کام کر سکتا ہوں‘‘۔ بھولو نے اپنے تایا گاماں کو بتایا۔ ’’مجھے اب کوئی نہیں گرا سکتا‘‘۔
’’اللہ کرے تجھے کوئی نہ گرائے‘‘۔ گاماں نے اسے پیار کیا۔
’’بابا جی آپ کو پتہ ہے مجھے مولا مشکل کشا کا تھاپڑا مل چکا ہے‘‘۔ بھولو نے انکشاف کیا۔
’’کیا کہہ رہے ہو بھولو پتر‘‘۔ گاماں نے اسے حیرت پاش نظروں سے دیکھا اور امام بخش سے کہا۔ ’’امام بخش یار تو نے بتایا ہی نہیں‘‘۔
’’میں نے کسی کو نہیں بتایا بابا جی‘‘۔ بھولو نے گاماں کے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے آج رات ہی خواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تھاپڑا دیا ہے۔ یہ دیکھیں میرے کندھے پر ان کی مہر ثبت ہے‘‘۔
امام بخش اور گاماں نے اس کا کندھا دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھے اور بھولو کو چومنے لگے۔
’’واہ بھولو تیرے تو وارے نیارے ہو گئے۔ تو بڑا خوش بخت ہے‘‘۔ گاماں نے بھولو کو گود میں اٹھا لیا۔ ’’اب میرا بھولو کسی سے نہیں گرے گا‘‘۔
گاماں اور امام بخش کی شفقت اب عقیدت میں بدل گئی تھی۔ بھولو کے لاڈ پیار میں اضافہ ہو گیا وہ ہر دم اسے اپنی نظروں میں رکھنے لگے۔ عام بچوں سے ممتاز ہونے کے باوجود بھولو، بھولو ہی رہا۔ وہی شرارتی نڈر اور بے باک بھولو۔ اس سے دوسرے روز کی بات ہے۔ حمیدا پہلوان رادھن پور سے پٹیالہ آیا۔ اسے جب خبر ہوئی کہ بھولو کو حضرت علی کا ’’تھاپڑا‘‘ مل چکا ہے تو اس نے اپنی بہن سے کہا۔ ’’بہن جی میری خواہش ہے کہ میں بھولو کی پرورش کروں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو تین فرزند دئیے ہیں۔ میری ابھی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ بھولو میرے پاس آ جائے۔اس کی مامی بھی یہی کہتی ہے‘‘۔
’’میرے سوہنے ویر!‘‘ رشیدہ بیگم نے کہا۔ ’’میرے بس میں ہو تو میں ابھی بھولو کو تیرے حوالے کر دوں۔ میں نے ایک بار دبی زبان سے تمہارے بھائی جان سے کہا تھا مگر وہ نہ مانے تھے۔ اب تم خود ہی ان سے بات کر لو‘‘۔
حمیدا پہلوان اسی وقت اکھاڑے کی بیٹھک میں گیا جہاں امام بخش اپنے یار دوستوں کے پاس بیٹھا تھا۔ حمیدا پہلوان ان کے ساتھ شریک گفتگو رہا۔ پھر جب تمام لوگ چلے گئے تو حمیدا نے اپنا حرف مدعا بیان کیا۔ ’’یار حمیدے!‘‘ امام بخش نے کہا۔ ’’یہ بات تو تمہاری بہن بھی کہہ چکی ہے اور مجھے کوئی زیادہ اعتراض نہیں ہے۔ ایسا ہے کہ میں پہلے صاحب جی سے بات کر لوں‘‘۔
رات کو جب امام بخش نے گاماں پہلوان سے اس بات کا ذکر کیا تو گاماں پہلوان خلاف معمول بھڑک اٹھا۔ ’’وہ کون ہوتا ہے بھولو کو گود لینے والا۔ میں ہرگز اسے نہیں بھیجوں گا۔ جاؤ اور اس پر واضح کر دو کہ آئندہ ایسی خواہش کا اظہار نہ کرے‘‘۔
امام بخش نے اگلی صبح حمیدا پہلوان سے کہا۔ ’’حمیدے یار، میں نے صاحب جی سے کہا تھا، وہ نہیں مانے۔وہ اپنی نگرانی میں بھولو کی تربیت کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
حمیدا پہلوان کو دھچکا لگا۔ اس نے بجھے دل کے ساتھ کہا۔ ’’ٹھیک ہے بھائی جان!اللہ آپ کی خوشیاں بڑھائے۔ اللہ نے چاہا تو ہمیں بھی پتر دے گا۔ ’’حمیدے کی آنکھیں جھلمل کرنے لگیں۔
امام بخش نے اسے حوصلہ دیا۔ ’’رب سے دعا کرو اللہ اچھا کرے‘‘۔
حمیدا پہلوان اگلے دن روز رادھن چلا گیا۔وہ دوران سفر بجھا بجھا سا رہا۔ وہ دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ خدا کسی طرح بھولو کو اس کے زیر سایہ کر دے۔
امام بخش اپنی جہازی سائز کی چارپائی پر تکیے کا سہارا لئے ناول پڑھنے میں منہمک تھا جب بھولو آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا۔ امام بخش ناول میں ہی مگن رہا اور بھولو کی طرف توجہ نہ دی۔ بھولو چارپائی پر چڑھ گیا اور دوسرے ہی لمحہ باپ کے پیٹ پر بیٹھ گیا۔ امام بخش نے ناول پرے ہٹایا اور بھولو کی طرف متبسم انداز میں دیکھ کر بولا۔
’’کیا بات ہے بھولو پتر، تیری آنکھوں میں بڑا غصہ نظر آ رہا ہے‘‘۔
’’غصہ نہ کروں تو اور کیا کرو۔ آپ کے حکم نے میرے ہاتھ باندھ دئیے ہیں ورنہ آج میں نے ترفلی مچا دینی تھی‘‘۔
امام بخش نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ ’’میرے شیر ببر ذرا دماغ کو ٹھنڈا کر پھر بات کر۔ ہاں مجھے بتا تو کیوں ترفلی مچانا چاہتا ہے‘‘۔
بھولو باپ کے پیٹ سے سرک کر ذرا سینے تک آیا اور باپ کی لمبی گھنی سفید ہوتی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا۔ ’’ابا جی! مجھے آپ کی مونچھوں کی قسم ہے میں آج ساری بوٹیاں کھا جاتا اگر ماں جی نہ روک دیتیں۔ دیکھیں ناں ذرا میرا پیٹ ابھی تک نہیں بھرا اور ماں جی کہہ رہی ہیں بس تم نے اپنا حصہ لے لیا ہے اور نہیں ملے گا۔ اب خود سوچیں اگر میں بھوکا رہا کروں گا تو بڑا پہلوان کیسے بنوں گا‘‘؟
’’اچھا تو یہ بات ہے۔ چل اٹھ یار تیری بھوک مٹا دیتے ہیں۔بھلا اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘ امام بخش نے بھولو کو نیچے اتارا اور آٹھ سالہ بھولو باپ کی انگلی پکڑ کر صحن میں آیا جہاں اس کی بہنیں اور تینوں بھائی اس کی والدہ کے گرد گھیراؤ کئے بیٹھے تھے۔
امام بخش کے پہنچتے ہی بھولو کی والدہ نے ہانڈی میں ڈھکا ہوا گوشت بڑے تھال میں ڈالا اور روٹیوں کی چنگیر اس کے آگے کھسکا دی۔
’’بھولو آج آپ کی شکایت کر رہا تھا‘‘۔ امام بخش نے بھولو کی شکایت اس کی ماں کے گوش گزار کی۔
’’یہ تو نرا ندیدہ ہے۔پہلے ہی اپنے حصہ سے زیادہ کھاتا ہے اور دوسرے بچے اس کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں‘‘۔ سردار بیگم نے بھولو کے کان اینٹھے اور کہا۔ ’’تجھے شکایت کرنے کی بڑی جلدی تھی‘‘۔
بھولو نے پھر شکایتی انداز میں باپ کی طرف دیکھا اور منہ بسور کر بولا۔ ’’دیکھ لیا ناں ابا جی! ماں جی کھانے کے نام پر کیا کرتی ہیں۔ جائیں اب ہم بھی اکھاڑے میں نہیں جایا کریں گے‘‘۔
بھولو کی اس معصومانہ ادا پر امام بخش اور سردار بیگم مسکرا دئیے۔ ’’یار یہ دھمکی تو نہ دے۔ لے، آ جا اب میرے ساتھ۔ ‘‘ امام بخش نے بھولو کو اپنے پاس کر لیا۔ حسو، اعظم اور اسلم بھی سرک کر قریب آ گئے۔ سردار بیگم نے بیٹوں کے تیور دیکھے تو بولی۔ ’’یہ ندیدے کبھی نہیں کہیں گے کہ پیٹ بھر گیا ہے۔ حالانکہ چاروں اپنا حصہ کھا چکے ہیں‘‘۔
’’موج کرنے دو انہیں بیگم‘‘۔ امام بخش نے بچوں کو شہ دی اور چاروں باپ کے کھانے پر ٹوٹ پڑے لیکن بھولو نے اتنی تیزی کا مظاہرہ کیا کہ تینوں بھائی منہ تکتے رہ
گئے اور بھولو باپ کا سارا کھانا چٹ کر گیا۔ امام بخش بھولو کے اس ندیدے پن پر ہنستا رہا۔ والدہ بھولو کی اس عادت سے خوب آشنا تھی۔ اس نے جھٹ سے دوسری ہانڈی کا ڈھکن سرکایا اور گوشت کو تڑکا لگا کر اپنے سرتاج کے سامنے رکھ دیا۔
’’بھولو کی شرارتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں‘‘۔ سردار بیگم نے تشویش بھرے لہجے میں خاوند سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں بچہ ہے‘‘ امام بخش نے کہا۔
’’مجھے ڈر ہے اسے نظر نہ لگ جائے۔ محلے میں نکلتا ہے تو محلے دارنیاں اسے بڑے رشک سے دیکھتی ہیں‘‘۔ بیگم نے کہا۔ ’’آج صبح ہی مائی منداں کہہ رہی تھی کہ بھولو لالہ جی کے گھر گیا تھا اور اس کی بیٹی سے کافی دیر تک کھیلتا رہا ہے‘‘۔
’’تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘ امام بخش نے لقمہ توڑتے ہوئے کہا۔
’’حرج کیوں نہیں ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ لالہ جی کی بیٹی ناچ گانے کی تربیت لے رہی ہے۔ مائی منداں نے بتایا ہے کہ وہ بھولو کو اپنا سیکھا ہوا گیت اور ناچ دکھا رہی تھی‘‘۔
امام بخش لقمہ چباتے ہوئے رک گیا۔اس کی تیوریوں پر بل پڑے اور لقمہ نگلنے کے بعد بولا۔
’’بھولو پر نظر رکھنی پڑے گی۔ اسے روکو، مت جایا کرے وہاں‘‘۔
’’میں روکوں اسے۔۔۔ آپ اور بابا جی کے لاڈ پیار سے وہ سر چڑھ گیا ہے۔ میری تو سنتا ہی نہیں ہے۔ذرا کچھ کہوں تو جھٹ دھمکی دیتا ہے کہ میں اکھاڑے میں نہیں جاؤں گا۔ آپ کو معلوم ہے کہ کس قدر ضدی ہے‘‘۔
’’اچھا تو میں کچھ کرتا ہوں‘‘۔ امام بخش کھانے سے فارغ ہونے کے بعد باغ میں گیا۔ تمام بچے کھیل کود میں مصروف تھے مگر بھولو ان میں موجود نہیں تھا۔
’’بھولو کہاں ہے؟‘‘ امام بخش نے اپنی بڑی بیٹی سے پوچھا۔
’’وہ تو لالہ جی کے گھر گیا ہے‘‘۔
امام بخش لالہ جی کے گھر پہنچا تو بھولو لالہ جی کی بیٹی کے پاس بیٹھا تھا۔امام بخش ایک درخت کی اوٹ میں ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ وہ دونوں باغ میں بنے ایک چبوترے پر بیٹھے تھے۔ لالہ جی کی بیٹی کملا دیوی دونوں ہاتھ پوجا کے انداز میں باندھے بھولو کو دیکھے جا رہی تھی۔ پھر وہ اٹھی اور بھولو کے چرن چھو کر الٹے قدموں پیچھے ہٹی اور رقص کے انداز میں اپنے پاؤں کو حرکت دینے لگی۔ اس کے لبوں سے گیت ابلنے لگا۔ تو میرا بھگوان، میں تیری داسی۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں