قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 41
لتا منگیشکر
1961 ء میں جب میں انڈیا کے سفر پر گیا تو میرے ساتھ میری بیوی اور بیٹا نوید تھے۔ بمبئی میں جب میں مقیم تھا تو مجھے میرے شاعر دوست اندیور نے بتایا کہ لتا منگیشکر کوجب میری بمبئی آمد کی اطلاع ملی تو انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے بھی پہلے سے تہیہ کر رکھا تھا کہ مشرق کی اس عظیم گلوکار ہ سے بہرحال نیاز حاصل کروں گا ۔ چنانچہ اندیور صاحب نے اس ملاقات کو یوں طے کیا کہ جب سٹوڈیو میں ان کے گانے کی ریکارڈنگ ہوگی تو وہیں ہماری ملاقات بھی ہو جائے گی۔
اس روز اندیور صاحب کے لکھے ہوئے دو نغمات کی ریکارڈنگ ہونی تھی۔ جب میں ریکارڈنگ روم میں پہنچا تو پہلے نغمے کی ریکارڈنگ جاری تھی۔ اس موقع پر کلیان جی آنند جی جو دو بھائی میوزک ڈائریکٹر ز ہیں ‘ ریکارڈنگ میں ہمہ تن مصروف تھے۔ لیکن انہوں نے دو ٹیکوں کے درمیان میں میرا ایسا استقبال کیا اور مجھے ایسی عزت دی جس نے تھوڑے سے وقت کی ملاقات کو مستقل دوستی میں بدل دیا۔
پھر جب پہلے نغمے کی ریکارڈنگ ختم ہوئی تو لتا جی خود چل کر مجھ تک پہنچیں اور گفتگو کا سلسلہ کچھ اتنا طویل ہو گیا کہ دوسرے نغمے کی ریکارڈنگ میں تاخیر ہونے لگی۔میں نے لتا جی سے کہا ’’ باتیں پھر بھی ہو سکتی ہیں آپ پہلے ریکارڈنگ کر وا لیجئے ‘‘
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لتا جی نے کہا ’’ریکارڈنگ بعد میں ہو جائے گی ‘ باتوں کا سلسلہ نہیں ٹوٹنا چاہیے‘‘ چنانچہ باتوں کا سلسلہ نہ ٹوٹا اور میوزک ڈائریکٹرز کلیان جی آنند جی نے ریکارڈنگ کسی اور دن پر ملتوی کر دی۔
گفتگو کے موضوعات وہی شعر و موسیقی تھے البتہ خاص بات یہ ہوئی کہ لتا جی نے میر ی یہ تجویز قبول کر لی کہ میری دس غزلوں کا ایک لانگ پلے ریکارڈنگ بنایا جائے اور یہ تمام غزلیں صرف لتا جی نے گائیں ۔ میوزک ڈائریکٹر کے لئے میں نے سجاد کا نام پیش کیا جسے لتا جی نے قبول کر لیا او ر ہماری دوسری ملاقات لتا جی کے گھر ’’پر بھوکنج ‘‘ میں طے پائی جب مقررہ وقت پر میں ان کے گھر پہنچا تو لتا جی کو گھر کی دہلیز پر منتظر پایا۔ وہ ایک سفید ساڑھی پہنے ‘ زیورات سے بے نیاز سادگی کی ایک خوبصورت مثال پیش کر رہی تھیں ۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک اپسرا کھڑی ہے ۔ میں نے لتا جی کی سادگی میں جو حسن دیکھا وہ حسن زیورات اور بھڑکیلے لباسوں سے لدی ہوئی خواتین میں کبھی نظر آیا ۔
میرے ہمراہ میری بیوی اور میرا چار سالہ بیٹا نوید قتیل بھی تھا جو ماشاء اللہ اب جوان ہو چکا ہے اور ایک شوقیہ گلوکار کے طور پر اپنی شہرت کا آغاز کرچکا ہے۔ لتا جی ہم سب کو دیکھ کر پہلے سے زیادہ خوش نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے چائے سے فارغ ہو کر ہمیں ایک کمرے میں سجی ہوئی اپنی بہن اوشامنگیشکر کی تصاویر بھی دکھائیں اور ساتھ ہی اوشاجی سے ہمارا تعارف کروایا اور ہم لوگ تھوڑی دیر میں ان سے اجازت لے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔
1961 ء کے بعد 1979 ء میں انڈین فلمساز منوج کمار نے میری ایک غزل:
کب تلک شمع جلی یاد نہیں
شام غم کیسے ڈھلی یاد نہیں
کی ریکارڈنگ کے موقع پر مجھے بمبئی آنے کیلئے کہا ۔ چنانچہ پورے اٹھارہ برس بعد میں ‘ میری بیوی اور نوید قتیل جواب جوان تھا‘ عازم بمبئی ہوئے۔ چونکہ میری غزلیں کھہندر کپور اور لتا جی کی آواز میں ریکارڈنگ ہونی تھی اس لئے میری بڑی تفصیل کے ساتھ لتا جی سے ملاقات ہو گئی۔ لیکن وہ میری بیوی اور بیٹے کی آمد سے بے خبر رہیں۔
چند دنون بعد ہر ماسٹر وائس ریکارڈنگ کمپنی نے تاج محل ہوٹل میں لتا جی کے اعزاز میں ایک استقبالیہ پیش کیا جس میں بمبئی کی فلم انڈسٹری کے سینکڑوں لوگ مدعو کیے گئے اور پاکستان کی نمائندگی کے لئے مجھے اور میرے بچوں کو مدعو کیا گیا۔ جب یہ تقریب شروع ہوئی تو سب سے پہلے مجروح سلطانپوری صاحب نے لتا جی کے لئے ایک نظم پڑھی ‘ پھر مرحومہ نرگس جی نے انگریزی زبان میں ایک یاد گار تقریر کی اور کچھ لوگوں کی تقریروں کے بعد جب کھانے پینے کا مرحلہ آیا تو ہم لتا جی سے دور ایک ٹیبل پر بیٹھے تھے کہ اچانک لتا جی ہماری طرف آتی دکھائی دیں۔
انہوں نے آتے ہی میری بیوی سے کہا ’’ ارے آپ کب آئیں۔ قتیل صاحب نے تو مجھے بتایا ہی نہیں کہ آپ بھی آئی ہوئی ہیں‘‘
میر ی بیوی نے نوید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ میرے علاوہ آپ کا پرانا ننھا مہمان بھی ہمارے ساتھ ہے‘‘ لتا جی نے جوان ہو گئے اس بچے کو حیرت سے دیکھا اور اسے دعا دی۔
میں اس واقعہ کے بعد اب تک حیرت میں ڈوب ڈوب جاتا ہوں کہ ایک معروف آرٹسٹ نے پورے اٹھارہ سال بعد ایک گھریلو عورت کو کیسے پہچان لیا۔ کیا یہ اس آرٹسٹ کی عظمت کی دلیل ہے یا ایسا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کوہمیشہ یاد رکھتی ہے۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 42 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں