پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام؟

پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لانے کا فیصلہ کیا ہے، نئے نظام کے تحت فنڈز اور اختیارات کی تقسیم نچلی سطح پر لائیں گے، ہماری نیت، سوچ اور ارادے ٹھیک ہیں، ہم اداروں کو مضبوط بنائیں گے۔ سپیکر منتخب ہونے کے بعد میرا ٹارگٹ صوبے، ملک اور عام آدمی کے مفاد کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ پنجاب اسمبلی کی تعمیر کا کام مکمل کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں جہانگیر ترین اور علیم خان نے چودھری پرویز الٰہی سے اُن کے گھر جاکر ملاقات کی اور آئندہ پنجاب حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا۔
پاکستان کے کسی بھی صوبے میں کوئی بھی بلدیاتی نظام مستقل طور پر کام نہیں کرتا، ماضی میں مختلف قسم کے بلدیاتی نظاموں کے تجربات ہوتے رہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں سٹی گورنمنٹ کا جو نظام متعارف کرایا اس کے تحت انہوں نے ملک بھر میں دوبار بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرائے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے اس نظام کا بہت زیادہ کریڈٹ بھی لیتے تھے اور اُن کا دعویٰ تھا کہ عالمی سطح پر بھی اس نظام کی تعریف و توصیف ہوئی ہے 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنی اس لئے وہ بھی اس نظام کی سٹیک ہولڈر بن گئی اور اس کے دور میں یہی نظام چلتا رہا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں دو بلدیاتی انتخابات تو ہوگئے لیکن 2009ء میں جو انتخابات ہونے والے تھے وہ اس لئے نہ ہوسکے کہ 2008ء میں وفاق اور صوبوں میں جو حکومتیں برسراقتدار آئیں، وہ کسی نہ کسی وجہ سے اس نظام کو جاری رکھنے کے حق میں نہ تھیں اور بعض تبدیلیاں چاہتی تھیں۔ سندھ حکومت نے اس سسٹم میں تبدیلیاں کردیں، پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا ،دوسرے صوبوں نے بھی جو چاہا کیا کیونکہ یہ بنیادی طور پر صوبائی معاملہ ہی تھا۔ صوبائی حکومتیں تو بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کرتی رہیں لیکن جب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا تو تمام صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کا پابند کردیا گیا تب کہیں جاکر انتخابات ہوئے۔ سپریم کورٹ کے حکم سے کنٹونمنٹ بورڈوں کے انتخابات بھی ہوئے جہاں وائس چیئرمین کا عہدہ منتخب نمائندوں کے سپرد ہوا ،اس طرح اسلام آباد کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ وفاق دارالحکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے اور سی ڈی اے کے امور میں منتخب نمائندوں کا عمل دخل شروع ہوا۔
جنرل پرویز مشرف کا بنایا ہوا نظام اگر چلتا رہتا یا چلنے دیا جاتا تو وقت کے ساتھ ساتھ اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا، لیکن یہ موقع فراہم ہی نہیں کیا گیا اور صوبوں نے اپنی اپنی ضرورتوں یا زیادہ بہتر الفاظ میں مصلحتوں کو پیشِ نظر رکھ کر پر انے نظاموں کا ایک ملغوبہ سا بنالیا، سپریم کورٹ اگر حکم جاری نہ کرتی تو شاید بلدیاتی اداروں کے بغیر ہی کام چلایا جاتا رہتا کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی تو قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جب وہ ووٹروں سے ووٹ لینے جاتے ہیں تو وہ بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں علاقے میں سڑک بنادی جائے یا فلاں جگہ گلی پختہ کردی جائے، حالانکہ اگر بلدیاتی نظام مستحکم ہو تو یہ سارے کام خود کار طریقے سے ہونے چاہیں لیکن ایسا چونکہ نہیں ہے اور اس وقت بھی جو بلدیاتی نظام کام کررہا ہے وہ بھی ارکان اسمبلی کے انگوٹھے تلے دبا ہوا ہے، اس طرح بلدیاتی اداروں کے منتخب وائس چیئرمین اپنے اختیارات کے لئے مظاہرے تک کرنے پر مجبور ہوتے رہے ہیں۔ جہاں کسی بلدیاتی ادارے میں مخالف جماعت کے ارکان کا قبضہ ہو وہاں یہ شکایت عام ہوتی ہے کہ اسے فنڈز نہیں ملتے، کراچی اور حیدرآباد کے میئروں کو بھی یہ شکایت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ان شہروں کی ترقی کے لئے فنڈز نہیں دیتی جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ قانون کے مطابق جتنے فنڈز کراچی کو ملنے چاہئیں وہ دئیے گئے ہیں ان کی خورد برد نہ ہو تو یہ شہر کی ترقی کے لئے کافی ہیں۔
اسی تنازعے کی وجہ سے ایم کیو ایم جب کبھی وفاقی حکومت سے کوئی سودے بازی کرتی ہے تو اس میں یہ معاملہ سر فہرست ہوتا ہے کہ کراچی اور حیدر آباد کے لئے وفاق براہ راست ترقیاتی فنڈز جاری کرے، اب بھی ایم کیو ایم نے اپنے سات ووٹ عمران خان کو دینے کے لئے بذریعہ جہانگیر ترین ایک تحریری معاہدہ کیا ہے جس میں وفاقی حکومت سے ایم کیو ایم یہ مطالبات پورے کروائے گی، اب چونکہ تحریک انصاف کو وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے ووٹوں کی ضرورت ہے اس لئے دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی ایسے معاہدے کئے جارہے ہیں لیکن اگر ملک میں بلدیاتی نظام مضبوط ہو تو ہر چند برس یہ بات نہ سننی پڑے کہ نیا نظام لایا جائیگا۔اب پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لانے کے لئے چودھری پرویز الہٰی کے ذہن میں جو خاکہ ہے اس کی تفصیلات چونکہ سامنے نہیں اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کوئی نیا نظام لانا چاہتے ہیں یا اب تک رائج نظاموں کی شکست و ریخت کرکے کوئی نیا نظام نئی ٹیکسال میں ڈھالنا چاہتے ہیں، جب یہ سامنے آئیگا تو اس پر اظہار خیال کیا جاسکے گا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ عمران خان بار بار اعلان کرچکے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی کو بلدیاتی فنڈز نہیں دئیے جائیں گے اور بلدیاتی ادارے ہی ترقیاتی کاموں کے ذمے دار ہوں گے اور انہی کا کردار حتمی ہوگا اس لئے امکان تو یہی ہے کہ پنجاب میں اگر کوئی نیا بلدیا تی نظام آئے گا تو وہ عمران خان کے ویژن کے مطابق ہی ہوگا۔ البتہ ارکان اسمبلی کو فنڈ جاری نہ کرنے کا فیصلہ اگر ہوتا ہے تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی لیکن جس انداز میں نئی حکومت تشکیل پا رہی ہے اس میں ارکانِ اسمبلی کو ناراض کرنا خاصا مشکل کام ہوگا، پنجاب میں کوئی نیا نظام لانے سے بہتر ہے کہ موجود نظام کو ہی اوورہال کرکے نئے دور کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرلیا جائے اگر چند سال یہی نظام کام کرے گا تو بہتر نتائج بھی دے گا لیکن اگر ’’ہرکہ آمد، عمارتِ نوساخت‘‘ کی روایت پر عمل کرنا ہے تو یہ نئے حکمرانوں کی مرضی ہے انہیں اس سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟

مزید :

رائے -اداریہ -