موروثی سیاست کے کرشمے

موروثی سیاست کے کرشمے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہماری سیاسی جماعتیں اور قائدین جو خطاب کرتے اور کہتے ہیں ، عملی طور پر اس سے کافی مختلف ہوتا ہے، قریباً سبھی جماعتیں اور اکابرین موروثی سیاست اور اقربا پروری کے خلاف ہیں اور اپنی انتخابی تقریروں میں مخالفت بھی کرتے ہیں، خصوصاً عمران خان جو اب وزیر اعظم بننے جارہے ہیں، اس کے بہت خلاف ہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار کو ٹکٹ نہیں دیا، جہاں تک ان کی اپنی جماعت کا تعلق ہے تو حالیہ انتخابات میں ان کے اس فلسفے کی نفی نظر آئی، جب خیبرپختونخوا سے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی سالی نفسیہ عنایت اللہ خان خٹک اور بھتیجی ساجدہ بیگم قومی اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی نامزدگی زیادہ ہے۔ سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کی اہلیہ مسرت آصف، بھتیجی شیزا فاطمہ، سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ طاہرہ اورنگ زیب، سابق وفاقی وزیر مملکت پرویز ملک کے صاحبزادے علی پرویز ملک، اہلیہ شائستہ پرویز اور وہ خود قومی اسمبلی میں ہیں۔ سابق وزیر مملکت جعفر اقبال کی صاحبزادی زیب جعفر، بھتیجی مائزہ حمید قومی اسمبلی، ان کی اہلیہ عشرت جعفر صوبائی اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں، پیپلز پارٹی نے حنا ربانی کھر اور ان کے بھائی بلاول ربانی کھر کو قومی اسمبلی میں پہنچایا ہے، تحریک انصاف کی اکثر خواتین جماعتی عہدیدار بھی ہیں۔تفصیل کے مطابق تو اور بھی کئی نامزدگیاں ایسی ہیں جو عزیز و اقارب اور رشتہ دار خواتین کے لئے ہوئیں، اگرچہ قانون اور انتخابی قواعد کے مطابق یہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے کہ وہ انتخابات کے لئے جسے چاہیں ٹکٹ دیں اور مخصوص نشستوں کے لئے نامزدکریں، لیکن یہ ٹکٹ اورنامزد گیاں ان کے پروگرام سے مطابقت نہ رکھیں تو عوامی تاثر کچھ اور ہوتا ہے۔ نامزدگیوں کی تفصیل شائع اور نشر ہونے کے بعد رائے دہندگان کا یہ سوال بجا ہے کہ سیاسی جماعتیں جو کہتی ہیں اس پر عمل بھی کیا کریں، ایسی دو عملی عوام اور ملک میں جمہوریت کے لئے بہتر نہیں ہوتی۔ مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی دیہات، نچلے طبقے اور عام لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنے سیاسی قائدین سے مسائل کے حل کی توقع اور امیدرکھتے ہیں اور جب یہ قائدین تقریریں کرتے اور اپنی اپنی جماعت کا پروگرام دیتے ہیں تو متاثر ہونے والے عمل کی توقع بھی رکھتے ہیں، ان کو مایوس کرنا درست نہیں۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین کو چاہئے کہ وہ قول و فعل میں تضاد ختم کریں کہ اس سے ملک کی بہتری ہوگی اور عوامی مسائل کے حل کی صورت نکلے گی۔

مزید :

رائے -اداریہ -