چین میں 30 لاکھ مسلمان گرفتار، یہ کیوں کیا جارہا ہے؟ چینی حکومت نے ایسی وجہ بتادی کہ ہر مسلمان کی آنکھوں میں آنسو آجائیں
بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) چینی صوبہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے ناروا سلوک کی خبریں ایک عرصے سے سامنے آ رہی ہیں اور اب تو اقوام متحدہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ چینی حکومت نے 30 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ”انسداد شدت پسندی“ اور ”تعلیم نو کیمپوں“ میں بند کررکھا ہے۔ عالمی ادارے کے اس اہم بیان کے باوجود چین کا مﺅقف تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا، جیسا کہ ایک اہم سرکاری اخبار کے اداریے سے واضح ہے۔ سرکاری اخبار کا کہنا ہے کہ چین جو کررہا ہے ٹھیک کررہا ہے کیونکہ ہم اپنے ملک کے ایک حصے کو شام یا لیبیا بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
میل آن لائن کے مطابق اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد نسلی امتیاز کو بتایا گیا ہے کہ تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کو انسداد شدت پسندی مراکز میں رکھا گیا ہے جبکہ مزید 20 لاکھ تعلیم نو کیمپوں میں ہیں۔ اگرچہ ان کیمپوں کے متعلق میڈیا میں بھی ایک عرصے سے رپورٹس آرہی ہیں اور مبینہ طور پر ان میں وقت گزارنے والوں نے بھی بہت کچھ بتایاہے لیکن اس کے باوجود چینی حکومت نے اس قسم کے کسی بھی کیمپ کی موجودگی کا کبھی واضح طور پر اعتراف نہیں کیا۔
صوبہ سنکیانگ میں چینی حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کررکھا ہے لیکن علاقے کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے ان کی مذہبی اقدار اور ثقافت کو دبایا جارہا ہے۔ صوبہ سنکیانگ کی سرحدیں پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہیں اور یہاں بسنے والے مسلمانوں کو بارہا داڑھی رکھنے اور برقعہ پہننے پر پابندی جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑچکا ہے۔
سرکاری اخبار ”گلوبل ٹائمز“ کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے خطے میں استحکام بے حد مشکل سے آیا ہے اور مغربی ممالک اس استحکام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار کے مطابق اگر اس خطے میں شدت پسندی زور پکڑگئی تو حالات خراب ہوسکتے ہیں اور انسانی جانوں کو بہت بڑے پیمانے پر خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اخبار کے مطابق چین کی پالیسی بالکل درست ہے کیونکہ اس خطے میں سکیورٹی کریک ڈاﺅن نے ہی سنکیانگ کو ”چین کا شام“ یا ”چین کا لیبیا“ بننے سے روکا ہے۔