یوم آزادی مبارک
آج پورے پاکستان اور پورے کشمیر میں یوم آزادی منایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری موجود ہیں یوم آزادی کی تقریبات منعقد ہوں گی۔73برس پہلے آج ہی کے دن جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ منوایا تھا اور دنیاکے نقشے پرپاکستان کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آیا تھا۔ اسی دن سے کشمیریوں کا مطالبہ آزادی جڑا ہوا ہے کہ اگر پاکستان قائم نہ ہوتا تو کشمیر کو بھی آزادی کا خواب دیکھنا نصیب نہ ہوتا،تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی بھی اسی دن سے جڑی ہوئی ہے۔ قائد اعظم کے زیر قیادت مسلم لیگ کے زیر اہتمام چلنے والی تحریک پاکستان ہی کی بدولت بنگال کے مسلمانوں کو ایک الگ تشخص اور اپنا الگ علاقہ نصیب ہوا تھا۔ اگر 14اگست 1947ء نہ ہوتا تو بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھی نصیب نہ ہوتا۔ اس لحاظ سے اس مملکت کے بانی اول قائدا عظم ہی قرار پاتے ہیں۔ بھارت میں انتہا پسند ہندو قیادت نے 23کروڑ مسلمانوں کا جینا جس طرح دوبھر کر رکھا ہے، اسے دیکھتے ہوئے پاکستان (اوربنگلہ دیش) کے رہنے والے سربسجود ہیں کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ آپ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کشمیر کا بڑا حصہ اب تک مقبوضہ ہے، اس کی جدوجہد جاری ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان غلط فہمیوں کا سمندر ابھی تک پھیلا ہوا ہے لیکن ان سب خطوں کے باسیوں کے سینے میں دھڑکتے ہوئے دلوں کی دھڑکن ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کی سڑکوں پر کشمیر کے لئے نعرے بلند ہوتے اور بیت المکرم کے سائے میں بھارت کے استبداد کی مذمت ہوتی ہے۔
دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جسے مسائل درپیش نہ ہوں۔ انتہائی طاقتور اور امیر ممالک کو بھی الجھنوں سے نجات نہیں ہیں، پاکستان کو گو نا گوں مسائل کا سامنا ہے۔ تو یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں اسے سیاسی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی اور سماجی شعبوں میں بہت کچھ کرنا ہے، لیکن یہ اطمینان اپنی جگہ بہت بڑی دولت ہے کہ آپ اپنی زمین پر اپنی خواہشات کے مطابق تعمیر اور ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکے۔ پاکستان اپنی دستوری بنیاد پر اپنی اجتماعی زندگی کی مضبوط عمارت ابھی تک استوار نہیں کر سکا۔ اس کا ہر ادارہ حدود پاسداری کا سبق اچھی طرح یاد نہیں رکھ سکا، یوم آزادی کے موقع پر اس سبق کو ایک بار پھر دہرانے اور از بر کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین کی اہمیت کو نظر انداز کرنے ہی کا نتیجہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکل سکا تھا۔آئین کی بالا دستی ہی مملکت کے استحکام کی ضمانت دے سکتی ہے۔ ایسی مملکت جہاں قانون طاقت ہو،طاقت کو قانون بننے کی جرأت نہ ہو سکے۔ آج یہ عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ڈھاکہ سے اسلام آباد کے رشتوں کوایک بار پھر جوڑا جائے۔ اس کے لئے اسلام آباد کو آگے بڑھ کر اقدام کرنا ہو گا، ٹوٹے ہوئے دلوں پر ہاتھ رکھنا ہو گا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا دوسروں پر ان کی غلطیاں واضح کرتے چلے جانے سے کہیں بہتر ہے۔ 14اگست اپنے گریبان میں جھانکنے اور احتساب آپ کرنے کا تقاضا کر رہا ہے۔یوم آزادی مبارک