قیامِ پاکستان کو ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اس دورانیہ میں ایک عام آدمی پر جو قیامتیں ٹوٹیں وہ تو اب ہمیں گوگل کے علاوہ کہیں نہیں ملتیں، انہی میں سے ایک قیامتِ صغریٰ اس وقت برپا ہوئی جب خدائی خدمتگاروں نے ایک بالکل پْر امن جلسہ کا انعقاد کرتے ہوئے پاکستان کی نوزائیدہ حکومت سے اپنے ان تمام مرکزی و مقامی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا جو انگریز سرکار کے وقت سے جیلوں میں پڑے ہوئے تھے انہی قیدیوں میں خدائی خدمتگار تحریک کے بانی و سرپرست باچا خان بابا بھی موجود تھے اس وقت کی حکومت نے خدائی خدمتگار تحریک کے دفاتر نذرِ آتش کر دیئے تھے جس کے سبب خدائی خدمتگار بابڑہ چارسدہ کے مقام پر احتجاج کر رہے تھے اس پْر امن احتجاج میں اْس وقت کی صوبہ سرحد حکومت نے مرکزی حکومت کو مطلع کئے بغیر اس پْر امن جلسے پر فائر کھول دیا بالکل جیسے جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں سینکڑوں بے گناہ سکھوں کو بھون کر رکھ دیا تھا، اس واقعہ کو پشتونوں کی کربلا بھی کہا جاتا ہے، مطالعہ پاکستان میں تو اس سانحہ کی کوئی معقول تفصیل نہیں ملتی لیکن چونکہ آجکل گوگل کا دور ہے اس لئے ہر کوئی اس ناحق خونریزی کو گوگل کرکے تفصیل جان سکتا ہے میں اس مختصر مضمون میں اس پوری تحریک اور اس واقعہ کے پس و پیش مناظر کو بیان کرنے سے قاصر ہوں، نوم چومسکی نے کہا تھا کہ طاقتور کے نزدیک ”جرم“ وہی ہے جو کسی اور شخص سے سرزد ہوا ہو، وہ خود چاہے لاشوں کے ڈھیر لگا دے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دے، اپنے ظلم سے دریائے دجلہ کا پانی خون آلودہ کردے، وہ جرم نہیں بلکہ اْس کا حق کہلاتا ہے لیکن تاریخ نے ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کیا، سفاک ظالم وقتی طور پر بھلے ہی انسانیت کا لبادہ اوڑھ لیں، درباری اْن کی شان میں قصیدے گاتے پھریں، ہر طرف اْن کی واہ واہ ہوتی رہے لیکن تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ وہ ظالم اور وحشی کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں، مندرجہ بالا اقتباس محمد زبیر نیازی کے جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بارے میں لکھے گئی ایک تحریر سے لیا گیا ہے، میں نے اسے یہاں اس لئے نقل کیا کہ جلیانوالہ باغ اور سانحہ بابڑہ میں کئی باتیں مشترک ہیں، یہ عبدالقیوم خان کشمیری کی حکومت تھی جس نے مرکز کو اندھیرے میں رکھ کر یہ ظلم سرانجام دیا، 12 اگست 1948 کو یہ سانحہ پیش آیا، یہ بہت ہی اندوہ ناک صورتحال تھی جب خدائی خدمتگار تحریک کے کارکنوں کی عورتیں سروں پر قرآن رکھ کر فورسز سے فائرنگ روکنے کی منت کر رہی تھیں اس ظلم و بربریت میں براہ راست سرحد پولیس اور پاکستان کی پارلیمانی فوج نے حصہ لیا، 611 بالکل بے گناہ کارکن شہید ہوئے اور قریباً 1200 سے زائد کارکن زخمی ہوئے جن میں اچھی خاصی تعداد عورتوں کی بھی تھی، یہ جلیانوالہ باغ کی طرح بالکل اندھا دھند فائرنگ تھی جس میں عورتوں کو دیکھا گیا نہ ہی بچوں کو، سانحہ کے دوسرے روز عبدالقیوم کشمیری نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ شکر کریں ہماری فورسز کے پاس گولیاں ختم ہو گئی تھیں ورنہ جلسہ گاہ میں ایک شخص بھی زندہ نہ بچتا، قیامِ پاکستان کے بعد جس قدر صعوبتیں خدائی خدمتگاروں کے حق میں آئیں شاید ہی کسی اور سیاسی تحریک یا پارٹی کے حصے میں آئی ہوں، باچا خان بابا کو جس قدر اذیتیں قیامِ پاکستان کے بعد دی گئیں ان کی تفصیل کا وقت نہیں ورنہ یہاں تو معاملہ انگریز سرکار سے بھی کہیں آگے نکل جاتا ہے، قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد آمریت نے اس نوزائیدہ ریاست کو اس مضبوطی سے دبوچ لیا تھا کہ پھر عوام انگریز سرکار کو یاد کرنے لگی تھی، باچا خان بابا کی تحریک عدم تشدد پر مبنی تھی آپ نے کبھی اپنے کارکنوں کو لاٹھی تک اٹھانے کی تاکید نہیں کی البتہ پشتون قوم کا واحد گناہ شاید قراردادِ بنوں ہی تھا جس میں انہوں نے انگریز سرکار سے یہ درخواست کی تھی ہمیں ایک الگ ریاست پختونستان کے قیام کی اجازت دی جائے جس کو بہرحال بغیر کسی بحث و تمحیص کے مسترد کر دیا گیا تھا یہ قرارداد جون 1947 میں پیش کی گئی جس کے استرداد کے بعد باچا خان بابا نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں حلف لے کر ریاستِ پاکستان کو تسلیم کر لیا تھا مگر اس کے باوجود بھی باچا خان بابا پر ریاستِ پاکستان کی جانب سے قید و بند کی صعوبتوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر اسی کا حتمی نتیجہ بے گناہ اور نہتے پشتونوں پر کربلا یعنی بابڑہ قتلِ عام کی صورت میں سامنے آیا، چونکہ یہ ظلم و ستم مقتدرہ کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا اس لئے اس کا ذکر تفصیل سے تو درکنار اجمالی معلومات بھی کہیں نہیں ملتیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی تاریخ کو بھول جائیں یہ ہماری ہی تاریخ ہے پھر چاہے سرنگوں ہو کر اس کا اقرار کریں یا ڈھٹائی سے انکار، امام الانقلاب مولانا عبید اللہ سندھی جب جلاوطنی کے بعد ہندوستان آئے تو کافی رنجیدہ تھے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر آپ کی صاحبزادی نے فرمایا کہ ابا حضور اب تو بس انگریز جانے والاہے ہمارے ملک سے اور آپ کی جدوجہد رنگ لا رہی ہے تو آپ نے اس موقع پر عظیم الشان الفاظ کہے " کہ بیٹا انگریز چلا جائے گا اتنا تو اب سمجھ چکا میں،لیکن انگریز کے جانے کے بعد جو لوگ اس خطے پر حکومت کریں گے لوگ کہیں گے انگریز بہت اچھے تھے. "