تحریک پاکستان کے عظیم راہنماء علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒ
تحریر:جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر اَحمد صاحب عثمانی ؒسے علمی دُنیا کا کون سا فرد ناوَاقف ہوگا؟ قیامِ پاکستان کے لئے اُن کی گراں قدر خدمات ناقابلِ فراموش ہیں اور انہی خدمات کی وَجہ سے جناب قائد اَعظم محمد علی جناح صاحب مرحوم نے پاکستان کا جھنڈا پہلی بار خود لہرانے کے بجائے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو منتخب کیا اور اُنہی کے ہاتھوں سے مغربی پاکستان میں سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا۔ علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کی شخصیت اَپنے علم و فضل، وَرَع و تقویٰ، تقریری و تحریری اور سیاسی خدمات کے لحاظ سے بلاشبہ ایک ایسی شخصیت تھی جس کی نظیریں ہر زمانے کی تارِیخ میں گنی چنی ہوتی ہیں، اللہ نے اُن کی زبان و قلم سے نہ صرف دِین اور علومِ دِین کی عظیم الشان خدمتیں لیں بلکہ تعمیر پاکستان کے سلسلہ میں وہ کارہائے نمایاں اَنجام دِلوائے جنہیں چھپانے اور مٹانے کی ہزار کوششوں کے باوجود فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ پاکستان کے اُن مخلص معماروں میں سے تھے جنہیں بانیانِ ملک میں صف اَوّل کا مقام حاصل رہا لیکن قوم نے اُنہیں بہت جلد بھلادِیا، اُنہوں نے اُمت پر عظیم اِحسانات کیے، وہ جتنے ناقابلِ فراموش تھے اَفسوس ہے کہ آج وہ اتنے ہی پردہئ خفا میں چلے گئے۔
میرے وَالد ماجد حضرت مولانا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہٗ نے جن اَکابر کی صحبت اُٹھائی اور جن سے آخر وَقت تک خصوصی تعلق رہا، اُن میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی صاحب ؒبھی شامل ہیں۔ حضرت وَالد صاحب ؒنے ہدایہ کا کچھ حصہ اور صحیح مسلم حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ ہی سے پڑھی تھی اور جب علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ ڈَابھیل میں صحیح بخارِی کا دَرس دیتے تھے تو ایک مرتبہ بیمارِی کی بنا پر تدرِیس سے معذور ہوگئے۔ اُس موقع پر حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے اَپنی جگہ صحیح بخارِی کا دَرس دینے کے لیے حضرت وَالد مفتی محمد شفیع صاحب ؒکو نامزد فرمایا۔ حضرت وَالد صاحبؒ اُس وَقت دَارُ العلوم دِیوبند سے مستعفی ہوچکے تھے۔ حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کی فرمائش پر ڈَابھیل تشریف لے گئے اور چند ماہ وَہاں علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کی جگہ صحیح بخارِی کا دَرس دِیا۔ پھر جب قیامِ پاکستان کے لئے علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے ملک گیر جدوجہد شروع کی اور اس غرض کے لیے جمعیت علماء اِسلام کا قیام عمل میں آیا تو حضرت وَالد صاحب ؒاس پورِی جدجہد میں علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کے دست و بازو بنے رہے اور اس غرض کے لیے ملک کے طول و عرض میں دورے کئے۔ متعدد مقامات پر جہاں علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ تشریف نہیں لے جاسکتے تھے، حضرت وَالد صاحب ؒکو اَپنی جگہ بھیجا اور سرحد ریفرنڈم کے موقع پر پورے صوبہ سرحد کا دورہ کرتے ہوئے وَالد صاحبؒ کو اَپنے ساتھ رَکھا۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں اِسلامی دستور کی جدوجہد کا آغاز ہوا تو علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ ہی کی دَعوت پر حضرت وَالد صاحبؒ پاکستان تشریف لائے۔ انہی کی ہدایت پر تعلیماتِ اِسلامی بورڈ میں شامل ہوئے جو اِسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، پھر علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ شبیر احمد عثمانی کی وَفات تک ہر اَہم معاملہ میں اُن کے شریک کار رہے اور حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادَت بھی آپ ہی کو حاصل ہوئی۔
چوں کہ علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ پاکستان کے صف اَوّل کے معماروں میں شامل تھے، اِس لیے قائد اَعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم تقسیم ملک کے وَقت آپ کو اَپنے ساتھ پاکستان لے آئے تھے اور مغربی پاکستان میں پاکستان کی آزادی کا پرچم سب سے پہلے علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ ہی نے لہرایا۔ اَگر آپ چاہتے تو یہاں اَپنے لیے بہت کچھ دُنیوی ساز و سامان اور عہدہ و منصب حاصل کرسکتے تھے، لیکن علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے آخر وَقت تک درویشانہ زِندگی گزارِی۔ اَپنے لیے کوئی ایک مکان بھی حاصل نہ کیا، بلکہ وَفات کے وَقت تک دو مستعار لئے کمروں میں مقیم رہے اور اُسی حالت میں دُنیا سے تشریف لے گئے کہ نہ آپ کا کوئی بینک بیلنس تھا، نہ ذَاتی مکان تھا، نہ ساز و سامان۔
1948ء میں جب حضرت وَالد صاحب ؒپاکستان تشریف لائے تو روزانہ شام کے وَقت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒکے پاس جانے کا معمول تھا۔ رَاقم الحروف اُس وَقت بہت کم سن تھا اور اَکثر وَالد صاحب ؒکے ساتھ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی خدمت میں چلاجایا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں کراچی میں کوئی معیارِی علمی مرکز نہیں تھا کوئی علمی کتب خانہ بھی نہ تھا۔ لہٰذا جب کسی علمی مسئلہ کی تحقیق مقصود ہوتی تو علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒحضرت وَالد صاحبؒ کے پاس تشریف لے آتے کیوں کہ وَالد صاحبؒ اَپنے ساتھ اَپنی ذَاتی کتابوں کا ذخیرہ لے کر آئے تھے۔ چنانچہ ہمارے مکان پر علمی و فقہی مجلسیں رہتیں اور علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒاَپنے ضعف و علالت کے باوجود علمی پیاس بجھانے کے لئے تین منزلہ مکان کی سیڑھیاں طے کر کے پہنچ جایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کو تحریر و تقریر دونوں کا منفرد ملکہ عنایت فرمایا تھا۔ خاص طور سے آپ کی خطابت اِنتہائی مؤثر اور دِل نشین ہوتی تھی اور آپ مختلف جملوں کے ذَریعہ اَپنی بات دِلوں میں اُتاردیتے تھے۔
علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒنے تحریک پاکستان سے پہلے یہ شرح لکھنی شروع کی تھی۔ اس کتاب کی تین جلدیں بڑے سائز پر شائع بھی ہوچکی تھیں اور اُنہوں نے دُنیا بھر کے اہلِ علم سے خراجِ تحسین حاصل کیا تھا، ”صحیح مسلم“ اَحادِیث کے مجموعوں میں ”صحیح بخارِی“ کے بعد دُوسرے نمبر پر ہے اور اس کی ایک مبسوط شرح کی ضرورَت تمام اہلِ علم محسوس کرتے تھے، حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒنے اِس ضرورَت کو پورَا کرنے کا بیڑا اُٹھایا تو سارِی علمی دُنیا نے اس پر مسرت کا اِظہار کیا، چوں کہ کتاب کسی ایک خطے کے لئے نہیں بلکہ پورِی اِسلامی دُنیا کے اہلِ علم کے لئے لکھی جارہی تھی، اِس لیے علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے اسے عربی میں لکھا جو پورے عالَمِ اِسلام کی مشترک علمی زبان ہے، لیکن اَبھی علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے ”صحیح مسلم“ کا نصف حصہ بھی مکمل نہیں کیا تھا کہ ہندوستان میں قیامِ پاکستان کی تحریک شروع ہوگئی اور علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے اَپنے آپ کو پاکستان کی خدمت کے لئے وَقف کردِیا اور شب و روز کی ہنگامہ خیز مصروفیات میں اس کتاب کی تالیف رُک گئی، پاکستان بننے کے بعد وہ پاکستان کی تعمیر میں دِن رَات مصروف رہے، اِس لیے یہاں آکر بھی اس کی تکمیل نہ کرسکے، یہاں تک کہ 1949ء کے آخر میں آپ کی وَفات ہوگئی اور یہ کام تشنہ تکمیل رہ گیا، برصغیر کے علاوَہ عرب ممالک کے علماء بھی اِس اِشتیاق اور اِنتظار میں تھے کہ کوئی اور شخص اِس تالیفی منصوبے کی تکمیل کرے، تاکہ یہ عظیم الشان علمی کارنامہ جس نے ایک بڑے خلا کو پُر کیا ہے ادھورَا نہ رہ جائے۔
میں نے اَپنے وَالد ماجد ؒکے حکم سے اللہ تعالیٰ کے نام پر 1976ء میں اِس شرح کی تکمیل کا کام شروع کیا تھا، ”تکملہ فتح الملہم“ کے نام سے اُس کی جلدیں آتی رہیں، اَپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر میں بمشکل ڈیڑھ دو گھنٹہ یومیہ اس کام میں صرف کرپاتا تھا اور پے دَر پے سفروں کی وَجہ سے بیچ میں طویل وَقفے بھی آجاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اَٹھارَہ سال نو مہینے کے بعد3/ اگست 1994ء کو ”تکملہ فتح الملہم“ کا کام چھ جلدوں کی صورَت میں پایہئ تکمیل کو پہنچ گیا۔
حضرت وَالد صاحب ؒحضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒکی اُردو تصانیف میں ”تفسیر عثمانی“ کے علاوَہ ”اِسلام، العقل والنقل اور اِعجاز القرآن“ کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے اور کئی مرتبہ اَپنی اِس خواہش کا اِظہار فرمایا کہ اِن کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ ہوجائے۔ اَپنے بعض انگریزی دَان متعلقین کو اِس طرف متوجہ بھی فرمایا، لیکن اَفسوس ہے کہ یہ کام حضرت وَالد صاحب ؒکی حیات میں اَنجام نہ پاسکا۔ وَلَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ أَمْرًا۔
حضرت وَالد صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒکو خطابت کا غیر معمولی کمال عطا فرمایا تھا، لیکن ساتھ ہی طبیعت میں نزاکت اور نفاست بھی بہت تھی۔ چنانچہ جب ذَرَا طبیعت میں اَدنیٰ تکدر ہوتا تو وَعظ و تقریر پر آمادگی ختم ہوجاتی تھی۔
حضرت وَالد صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ کو تحریر کا بھی خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہٗ نے آزادِیِ ہند کی جدوجہد کے لیے جمعیۃ علماء ہند قائم فرمائی اور اِس غرض کے لیے دہلی میں ایک عظیم الشان اِجلاس طلب فرمایا تو اس کا خطبہ صدارَت حضرت شیخ الہند ؒکو دینا تھا۔ حضرت شیخ الہندؒ کو خود لکھنے کا موقعہ نہ تھا، اِس لیے اَپنے تلامذہ میں سے متعدد حضرات کو یہ خطبہ لکھنے پر مامور فرمایا۔ آپ کے متعدد تلامذہ نے اَپنے اَپنے اَنداز میں خطبہ لکھا لیکن بالآخر حضرت شیخ الہندؒنے جس خطبہ کو پسند اور منظور فرمایا وہ حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒکا تحریر فرمودَہ تھا۔ چناں چہ حضرت شیخ الہندؒ نے وہی خطبہ پڑھا اور وہی شائع بھی ہوا۔
حضرت وَالد صاحب ؒکے ساتھ حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒکا رِشتہ دَارِی کا بھی تعلق تھا اور حضرت وَالد صاحبؒ آپ کے شاگرد بھی تھے اور پھر تحریک پاکستان کی جدو جہد میں آپ کے دست و بازو بھی بنے رہے۔ اِن تمام رِشتوں کے نتیجہ میں حضرت علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒوَالد صاحبؒ سے بہت محبت فرماتے تھے اور آپ کی علمی و عملی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ دو قومی نظریے کے بارے میں حضرت وَالد صاحب ؒنے ایک اِستفسار کے جواب میں جو مفصل رِسالہ لکھا، اُس پر بطورِ تقریظ علامہ شبیر اَحمد عثمانی ؒنے تحریر فرمایا:
”میں نے اِس فتویٰ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا، ماشاء اللہ مسئلہ بالکل صاف کردِیا ہے۔ اہلِ علم و نظر کے لیے گنجائش نہیں چھوڑِی۔ سب اَطراف و جوانب وَاضح ہوکر سامنے آگئے ہیں۔ حق تعالیٰ سبحانہ مفتی صاحب کو جزائے خیر دے“۔