مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:158
تھکاوٹ نے بھوک کو تقریبا ً بے ہوش کر دیا تھا۔ طاہر کا خیال تھا کہ دوستوں کو یہاں سے سیا حتی پوسٹ کارڈ بھیجے جائیں۔ چناں چہ پہلے بلیو مون کے نیچے بنی سووینئیر شاپ سے راکا پوشی، قلعہ بلتیت اور پسو پُل کی تصاویر والے کا رڈز خریدے گئے پھر انہیں پوسٹ کرنے کےلئے جاپان چوک سے آگے سیدھی سڑک کے آ خر تک گئے جہاں انہیں ایک بے آباد ڈاک خانے کے باہر نصب سرخ لیڑباکس میں محکمہ¿ ڈاک کے سپرد کیا (یہ کارڈ کبھی کسی تک نہیں پہنچے)پھرکمرے میں آئے اور سو گئے۔
آنکھ کھلی تو شام ڈھل رہی تھی میرے ہم سفر باہر نکلے ہوئے تھے۔ میں ٹیرس پرکرسی ڈال کر بیٹھ گیا اور نیچے بازار کی چہل پہل دیکھنے لگا۔ ہوا ٹھنڈی تھی اور دور تک زرد روشنی بکھیرتے بلب دکھائی دینے لگے تھے۔جدید ہیوی گا ڑیوں میں لدے دولت مند پاکستانی سیاح کثیر تعداد میں آرہے تھے۔ خوش پوش عورتیں اور خوش شکل لڑکیاں چہروں پر بڑی بڑی عینکیں لگائے اور کندھوں پر شالیں ڈالے گا ڑیوں سے اترتیں اور دکانوں میں گھس جاتیں۔ جینز کی پینٹوں میں ملبوس، موٹی توندوں والے مرد یا تو ان کے پیچھے پیچھے دکانوں میں جاتے اور اپنے پھولے ہوئے پرس ہلکے کرتے یا باہر رک کر دوسری خواتین کی تاکتے رہتے۔یہ لوگ سیاح نہیں تھے بس دولت مند تھے اور انہیں کہیںتو جا نا تھا۔ لوگوں سے سنا تھا کہ ہنزہ بہت اچھی جگہ ہے اور اب بہترین سڑک بننے سے اپنی گاڑی بھی وہاں جاتی ہے تو وہ یہاں آ گئے تھے۔ کسی مہنگے ہو ٹل میں رہائش، اچھا کھانا اور شاپنگ۔ سیر مکمل۔۔۔ لیکن ہنزہ والوں کا کاروبار انہی کے دم سے ہے۔ ہم جیسے فُقروں سے نہیں جو سستا ترین ہو ٹل ڈھونڈتے ہیں، ایک وقت فاقہ کر کے پیسے بچاتے ہیں اور زیادہ تر پیدل گھومتے ہیں۔
ایک بار مجھے بھی چند صاحبان ِ ثروت کے ساتھ سیّاحت کے نام پر سوات میں ذلیل و خوار ہونے کا موقع ملا تھا۔ میرے ہمراہیوں کو سیّاحت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور شاید یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ سفر پر نکلے کیوں تھے؟ پنڈی سے آگے چلنے سے پیشتر ایک بڑے ہوٹل سے ناشتے کا سامان لیا گیا کیوں کہ وہ اجنبی جگہوں کا گند مند نہیں کھانا چاہتے تھے۔ پانی کی مونھ بند بوتلوں کا ذخیرہ کیا گیا کیوں کہ وہ سوات کا گندہ پانی پی کر بیمار ہونے کا رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ ویگن کی کھڑکیاں سختی سے بند رکھنے کا اہتمام تھا کیوں کہ وہ گرد اور آلودہ ہوا سے بچنا چاہتے تھے۔ انھیں ان سیکڑوں ہزاروں ابا بیلوں اور چڑیوں سے کوئی غرض نہیں تھی جو رات کے وقت منگورہ کی گلیوں میں بجلی کے تاروں پر یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے موسیقی کی دھن کے سُر (notations ) لکھے ہوں۔ انھیں بت کڑہ جیسے بدھ عہد کے کھنڈروں سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ ایک قدم بھی پیدل چلنا گناہ سمجھتے تھے۔ بقول ان کے وہ انجوائے کرنے آئے تھے ، تھکنے نہیں۔ وہ ہوٹل سے نکل کر گاڑی میں بیٹھتے ، شاپنگ کرتے اور پھر ہوٹل آکر سو جاتے۔ اس دوران اگر کوئی مشہور شہر یا جگہ گاڑی کے باہر آگئی تو اس پر بھی سرسری نگاہ ڈال لی جاتی۔ ان کے نزدیک اچھے ہوٹل ، اچھے کھانے اور شاپنگ کے علاوہ وہ ہر بات فضول اور غیر ضروری تھی۔ مجھ جیسے آوارہ کےلئے وہ سفر ایک اذیت ناک تجربہ تھا۔
اس شام ہنزہ میں بھی ایسے خوش حال لوگوں کی بہتات تھی ۔ جن کے قدومِ میمنت لزوم کے باعث مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔ مری اور کالام کی طرح اب ہنزہ والے بھی غریب سیاحوں سے کچھ بے رخی سے پیش آنے لگے ہیں۔ تجارت اور مروت ساتھ ساتھ نہیں چلتے۔ یہی ترقی کا راستہ ہے، یہی اس کی منزل ہے، اس کا کوئی حل نہیں۔ خلوص اور سادگی جوگیوںکی طرح آبادیوں اور شہروں سے دور رہتے ہیں جہاں بجلی اور پکی سڑک پہنچ جائیں وہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کسی اور ویرانے کی طرف نکل جاتے ہیں۔
”کیا دیکھ رہے ہیں؟“ طاہر نے ساتھ کی خالی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”بازار کی رونق دیکھ رہا ہوں۔“ میں نے جواب دیا۔
وہ بازار سے خوبانی کے بادام کے تیل کی شیشی اور ہنزہ کی چائے ”پلامتنگ“ کا پیکٹ لا یا تھا۔ اس کی والدہ کو ذیا بیطس تھی اور پلامتنگ کے متعلق بتایا گیا تھا کہ موٹاپے کے علاوہ ذیا بیطس کو بھی فائدہ دیتی ہے۔ باقی ساتھی بھی شاید ” شوکت ، شوکت “ کے نعرے لگاتے نیچے بازار میں کہیں مصروف تھے۔ آسمان پر پھر بادل آ نے لگے تھے۔شام کے سرمئی رنگ میں راکا پوشی کا رنگ بھی مدھم پڑ گیا تھا اور اب اس میں دن والی چمک بھڑک نہیں رہی تھی جیسے وہ بھی اپنا آپ دکھا دکھا کر تھک گئی تھی۔
”کھانا؟“ طاہر نے میری طرف دیکھا۔
”مجھے تو بھوک نہیں ہے۔“ میں نے باہر جانے سے بچنے کےلئے کہا۔ دن بھر کی تھکن نے جسم بوجھل کر دیا تھا۔
”تھوڑی دیر ٹھہر کر چائے پینے چلتے ہیں۔“ طاہر چائے کا شوقین ہے اور مجھے اس سے کوئی رغبت نہیں لیکن اسے کمپنی دینے کےلئے حامی بھر لی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔