”یہ بچہ ڈبل روٹی کے بعد دنیا کی سب سے بڑی چیز بننے جا رہا ہے“

”یہ بچہ ڈبل روٹی کے بعد دنیا کی سب سے بڑی چیز بننے جا رہا ہے“
”یہ بچہ ڈبل روٹی کے بعد دنیا کی سب سے بڑی چیز بننے جا رہا ہے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مترجم:علی عباس
قسط: 46
 میں اور Q
دراصل میری کوئنسی جانز سے لاس اینجلس میں اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب میں 12 برس کا تھا۔ بعد ازاں کوئنسی نے مجھے بتایا تھا کہ اُس وقت سیمی ڈیوس جونیئر نے اُس سے کہا تھا۔
”یہ بچہ ڈبل روٹی کے بعد دنیا کی سب سے بڑی چیز بننے جا رہا ہے۔“ اسی طرح کا کچھ کہا تھا، بہرحال، کوئنسی نے کہا۔
”سچ مچ؟“ میں اُس وقت کم سِن تھا لیکن مجھے مبہم طور پر یاد ہے کہ سیمی ڈیوس مجھے Qسے متعارف کرا رہا ہے۔
’ ’دی وز“ کے سیٹ پر میری اور اُس کی گہری دوستی ہوگئی اور یہ باپ بیٹے کے تعلق میں تبدیل ہوگئی۔ میں نے ”وز“ ختم ہونے کے بعد اُسے بلایا اور کہا ”دیکھو، میں ایک البم بنانے جا رہا ہوں۔۔۔ کیا تم کچھ پروڈیوسرز تجویز کر سکتے ہو؟“
 میں اندازہ نہیں لگا رہا تھا۔ میرا سوال بھولپن کا عکاس تھا لیکن سچا تھا۔ ہم نے کچھ دیر موسیقی کے بارے میں بات چیت کی اور وہ کچھ ناموں کے ساتھ آیا اور بے دلی سے دھیمی آوازمیںکچھ نا م بولے اور بعد ازاں اُس نے کہا، ”تم یہ مجھ سے کیوں نہیں کرا لیتے؟“
یہ حقیقت ہے کہ میں نے اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ اُسے ایسا لگا تھا کہ میں کچھ اندازہ لگا رہا ہوں لیکن ایسا نہیں تھا۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ اُس کی میری موسیقی میں اس قدر دلچسپی ہوگی۔ چنانچہ میں نے توتلاہٹ آمیز انداز میں کچھ ایسا کہا تھا، ”اوہ یقیناً، بہتر خیال ہے۔ میں نے اس بارے میں نہیں سوچا تھا۔“
کوئنسی مجھے تاحال اس حوالے سے مذاق کیا کرتاہے۔
بہرحال ہم نے جلد ہی اس البم پر کام شروع کیا جو” آف دی وال“ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔
میں اور میرے بھائیوں نے اپنی پروڈکشن کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا اور ہم نے اس کےلئے مناسب نام کے انتخاب کی جستجو شروع کی۔
آپ کو موروں کے بارے میں اخبار میں زیادہ تحریریں نہیں ملیں گی لیکن اسی دوران مجھے ایک تحریر ملی جو بہتر تھی۔ میں ہمیشہ یہ تصور کیا کرتا تھا کہ مور خوبصورت تھے اور مجھے ایک مور بہت پیارا لگا جو بیری گورڈی کے ایک گھر میں تھا۔ چنانچہ جب میں نے آرٹیکل پڑھا جس میں مور کی ایک تصویر بھی دی گئی تھی اور پرندے کی خصوصیات کے حوالے سے بے بہا معلومات فراہم کی گئی تھیں، میں پُرجوش تھا۔ میںنے سوچا کہ میں نے وہ نام ڈھونڈ لیا ہے جس کی ہم تلاش کر رہے تھے۔ یہ ایک تحقیقی آرٹیکل تھا، کچھ جگہوں سے خشک ہو جاتا تھا لیکن دلچسپ تھا۔ مصنف نے لکھا تھا کہ مور اپنے پنکھ اُس وقت پھیلاتا ہے جب وہ کسی سے محبت کے بندھن میں بندھا ہوتا ہے اور تب اُس کے سارے رنگ جگمگانے لگتے ہیں۔۔۔ قوس قزح کے تمام رنگ ایک جسم پر نظر آتے ہیں۔
 میں فوری طور پر اس خوبصورت تصویر کے پوشیدہ مفہوم سے متاثر ہوگیا۔ پرندے کے پنکھ ایک پیغام دیتے تھے اور میں اس کی جستجو میں تھا تاکہ جیکسنز اور ایک دوسرے کےلئے اپنے انتہائی خلوص کی وضاحت کر سکوں، اس کے ساتھ ہی اپنی مختلف النوع عادات کا بیاں ممکن بنایا جا سکے۔ میرے بھائیوں کو خیال پسند آیا۔ چنانچہ ہم نے اپنی نئی کمپنی کا نامPeacock پروڈکشن رکھا تاکہ جیکسن کے نام پر انحصار کم کیا جا سکے۔ ہم نے اپنے اولین ورلڈ ٹور کے ذریعے تمام نسلوں کے لوگوں کو متحد کرنے کے مقصد پر توجہ مرکوز رکھی تھی۔ کچھ لوگ جو ہمیں جانتے تھے وہ حیران ہوئے کہ ہماری موسیقی کے ذریعے تمام نسلوں کو متحد کرنے سے کیا مراد ہے۔۔۔ ہم سیاہ فام موسیقار تھے۔ ہمارا جواب ہوتا ”موسیقی رنگوں کی پہچان نہیں کر سکتی ہے۔“ ہم جہاں بھی گئے، ہم نے ہر رات خاص طور پر یورپ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں دیکھا کہ لوگوں سے ہماری ملاقات اپنی موسیقی کی وجہ سے ہوئی۔ اُن کےلئے اس اَمر میں کوئی اہمیت نہیں تھی کہ ہماری جلد کا رنگ کیا تھا یا کس ملک کو ہم اپنا وطن قرار دیتے ہیں۔ )جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -