ارسطو کے نزدیک شاعری ایک سنجیدہ فن ہے
تحریر: ملک اشفاق
قسط: 45
ڈرامہ نگار انسانوں کو عمل کی حالت میں پیش کرکے ان کی شخصیت اور کردار کے دقیق و عمیق پہلوﺅں کی بندش کرکے انہی انسانوں کی ہمتیں، بلکہ تمام انسانوں کی فطرت کے رموز کا انکشاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک انفرادی حیثیت رکھنے والی حقیقت کے بجائے ایک عالمگیر حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ گویا ارسطو کے نزدیک شاعری ایک سنجیدہ فن ہے جو کسی خاص انسان یا واقعہ کی نقل نہیں اتارتا بلکہ فلسفیانہ فکر و بصیرت سے کام لے کر انسانی فطرت کے راز ہائے سربستہ کو عریاں کرتا ہے۔ اس لحاظ سے شاعری ایک حقیر و رذیل شے نہیں ہے بلکہ سنجیدہ، باوقار اور گراں قدر سرمایہ حقائق ہے۔
ڈرامائی عمل معنی کے لحاظ سے اس قدر وسعت پذیر ہے کہ ہم اس کے وسیلے سے فطرت کے عظیم قوانین تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اگرچہ حزنیہ کے عمل میں درد و الم کا عنصر لازمی ہے تاہم اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف درد و الم حزنیہ کے عمل کی تشکیل کرتے ہیں۔ حقیقت میں درد دو الم اور خوف و دہشت حزنیہ کے عمل کو ایک خاص اہمیت عطا کرتے ہیں اور اس کی درپردہ حقیقت کو اپنا اظہار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ کسی شخص کی زندگی خواہ کتنی ہی المناک کیوں نہ ہو، کسی اعلیٰ ڈرامے کا موضوع نہیں بن سکتی جب تک کہ اس میں ایسے عناصر نہ ہوں جو معنویت کے اعتبار سے آفاقی حیثیت اختیار کر سکیں اور جن سے ہمیں انسانی فطرت کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم ہو۔ فنکار درد انگیز اور دہشت انگیز واقعات کو ڈرامے کے عمل میں اس طرح سموتا اور استعمال کرتا ہے کہ وہ کسی ایک انسان کا درد و الم بن جاتا ہے اور کچھ اس قسم کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
عمل کردار پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ کردار سے مراد اچھی یا بری انسانی صفات ہیں۔ چونکہ ان صفات کا اظہار عمل ہی سے ممکن ہے لہٰذا کردار عمل کے ماتحت ہے۔
کچھ شاعر انسانوں کی بےہودہ اور مضحکہ خیز صفات کو فن میں پیش کرتے ہیں۔ یہ شاعر طربیہ نگار ہوتے ہیں۔ ڈرامے کی سب سے اعلیٰ صورت حزنیہ ہے کیونکہ اس میں سنجیدہ شخصیتوں کے سنجیدہ اعمال کو پیش کیا جاتا ہے اور انہیں عام انسانوں سے ذرا بلند سطح پر دکھایا جاتا ہے تاکہ تاثر میں اضافہ ہو۔ یہ تاثر واقعیت کا نہیں ہوتا یعنی یہ تاثر اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ حقیقت میں واقعہ بالکل اسی طرح رونما ہوا تھا جس طرح ڈرامہ نگار نے پیش کیا ہے بلکہ ان کرداروں اور ان کے عمل کو فنی طور پر ممکن، قابلِ اعتبار اور لائقِ یقین بنا دینے کی کامیابی سے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ان تمام صفات کا مظہر عمل ہے لہٰذا عمل کو ڈرامے میں بنیادی اور اہم ترین حیثیت حاصل ہے۔ عمل (پلاٹ) اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ماتحت مختلف واقعات ایک ہی لڑی میں پرو دیئے جاتے ہیں اور عمل تمام واقعات کو ایک خاص سمت میں لے جا کر انجام تک پہنچاتا ہے۔ یہ واقعات ایک ہی محرک کے ماتحت اپنی منزل کی طرف سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جب وہ اپنے انجام کو پہنچتے ہیں تو ایک فنی تسکین کا احساس ہوتا ہے۔ قاری یا ناظر یقین کر لیتا ہے کہ ان تمام واقعات کو اس مخصوص عمل یا محرک کے ماتحت اور اس کہانی کی اندرونی منطق کے مطابق اسی منزل تک پہنچنا چاہیے تھا۔
اگر ہم عمل کے ان معنوں کو ذہن نشین کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ارسطو کے اس خیال میں کہ شاعری ایک فلسفیانہ عمل ہے کس قدر صداقت ہے۔ عمل کے ان معنوں کے پیش نظریہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ شاعری نقل کی نقل نہیں بلکہ حقیقت تک رسائی کا ایک اعلیٰ وسیلہ ہے۔
ڈرامہ میں سب سے اہم عنصر عمل کا عنصر ہے۔ ظاہر ہے کہ عمل کےلئے ایک زمانی طوالت کی ضرورت ہے جس کے دوران اسے شروع ہونے، ارتقائی منزلیں طے کرنے اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچنے کا موقع ملے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈرامہ کی طوالت کتنی ہونی چاہیے۔ ارسطو نے زمانی لحاظ سے اس کی طوالت ایک دور شمسی مقرر کی ہے۔ لیکن عمل کی طوالت کے سلسلے میں اس نے دلچسپ اور قیمتی باتیں کہی ہیں۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔