آزادی کے ستتر سال
کتنے ہی لوگ ایک پودے کو تھامے ہوئے تھے 13لوگ تو اخبار میں شائع ہونے والی تصویر میں دکھائی دئیے پودا ایک لگایا جارہا تھا اور ایک پودے کو لگانے والوں کی باقاعدہ قطار تھی دوسرے روز بھی کچھ اسی طرح کے مناظر دیکھنے کو ملے ایک سکول کی تقریب میں کتنے ہی لوگ صرف ایک پودے کو تھامے فوٹو سیشن میں مصروف تھے یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا علاقہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب۔ایم این اے اور دیگر عہدوں پر فائز صاحبان ایک پودا لگانے کے لیے جمع ہوئے تھے کچھ لوگ پودوں کے لئے چندے کی اپیل بھی کررہے تھے چندے کی اپیل، اس کسمپرسی پر ترس آگیا اورنمائشی پروگرام کو دیکھنے کے بعد مولانا الطاف حسین حالی یاد آئے جنہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب بیان کرتے ایک وجہ نمائش بتائی ہم نے دیکھا کہ پہلے پودے تو لگا دیے گئے لیکن پھر چند ہی روز میں ان کی دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ پودے کملا گئے مرجھا گئے میں سوچتا ہوں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے کیا اسی طرح ترقی کی تھی ہمارے ہاں تو آٹے کے ایک تھیلے کے لیے اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے گرمی کی شدت میں قطاروں میں کھڑے لوگ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے ایک دوسرے کے نیچے دب کر دم توڑ گئے اس قوم کے ساتھ ہمارے سیاستدان جو سلوک کررہے ہیں شاید انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے کہ ہم اسی لائق ہیں کہ ہمارے ساتھ اسی طرح کے ڈرامے کئے جائیں ہمارے ہاں سستے بازار لگتے ہیں تو ان کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان سستے بازاروں میں مہنگی چیزیں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں جو کوالٹی کے لحاظ سے ناقص اور غیر معیاری بھی ہوتی ہیں پاکستان کو اس طرح سے تو سر سبز شاداب نہیں کیا جا سکتا یہ جذبے تو کچھ اور لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو اپنے وطن کے لیے حقیقی معنوں میں کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور وطن کے لیے کچھ کرنے والے نمائش نہیں کرتے کہ ایک پودے کے لیے ضلعے کی ساری انتظامیہ اکٹھی ہو جائے تاکہ وہ حکومت کو دکھا سکے کہ ہم کام کر رہے ہیں حالانکہ اگر واقعی ہم پاکستان کے لیے کچھ کرتے تو آج 77 سالوں بعد پاکستان اس حالت میں نہ ہوتا، ہم پاکستان کے لیے کچھ کرتے تو چند ہی سالوں میں پاکستان کے لیے ایسا کچھ کر سکتے تھے کہ جس سے ملک اور قوم کی کچھ نہ کچھ حالت ضرور بدلتی ہم نے دیکھا ہے کہ ہم کسی ایک بات کو منوانے کے لیے احتجاج کرتے ہیں اثر یہ ہوتا ہے کہ کام اور بگڑتا جاتا ہے جیسے جماعت اسلامی کے دھرنے کے بعد بجلی کیا سستی ہوتی اور مہنگی ہو گئی یہ پاکستان کے سیاست دان پاکستان کو نہ جانے کس سمت لے جا رہے ہیں سیاست دانوں میں صرف موجودہ حکمران نہیں وہ سب شامل ہیں جو اس ملک پر حکومت کے مزے لوٹ چکے۔ چائنہ نے جب خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا تو نہ صرف ان کے حکمران بلکہ ان کے عوام نے بھی بھرپور ساتھ دیا عوام نے مہنگے اور اچھے کھانوں کی بجائے سادہ غذائیں کھانا شروع کر دی تھیں تاکہ ان کا ملک معاشی طور پر مستحکم ہو سکے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چائنہ نے اس قدر ترقی کی کہ بعض اوقات انہیں اپنی ترقی کے آگے بند باندھنا پڑے۔چائنہ کی اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ ترقی پر دنیا حیران رہ گئی اور ہم۔نے اپنے ملک میں اس قدر خرابی کی دنیا اس پر بھی حیران رہ گئی، ملک رہنماؤں کے جھوٹے وعدوں سے ترقی نہیں کرتے نہ ایسے خوشحالیاں آتی ہیں۔ دو حکمران جماعتوں میں سے ایک نے انتخابی مہم میں برملا عوام کو بجلی کے 200 یونٹ فری دینے کا وعدہ کیا اور دوسری جماعت نے 300 یونٹ تک فری بجلی دینے کا اعلان کیا لیکن حکومت بناتے ہی بجلی سستی کر دینے کی بجائے ان کی قیمتوں میں اور بھی اضافہ کر دیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ سے عرض کیاگیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ہاں،عرض کیا گیا کہ کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جی ہاں،پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:کیامومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اورہماری دونوں حکمران جماعتوں نے بجلی کے معاملے میں عوام سے صرف جھوٹ ہی نہیں بلکہ کھلا جھوٹ بولا جھوٹے وعدے کئے یہ کیسے رہنما ہیں کہ ہم مسلسل سفر میں ہیں اور آزادی کے ستتر سالوں بعد بھی انکی رہنمائی میں ہم منزل سے بہت دور ہیں چائنہ ہم سے بعد میں ترقی کا سفر شروع کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور ہم تو ترقی میں دنیا سے ابھی کئی صدیاں پیچھے ہیں دنیا تو رہی ایک طرف ہم تو ابھی بنگلہ دیش سے بہت پیچھے ہیں بنگلہ دیش کی طویل عرصے حکومت کرنے والی ظالم حسینہ(حسینہ واجد) اگرچہ مسلمانوں پر ظلم کے سلسلہ دراز کئے رہی لیکن اس نے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا معیشت مستحکم کردی قرضوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہونے لگی اورہم دنیا کے اس قدر مقروض ہو چکے ہیں کہ ہمارا اصل قرض اپنی جگہ پر موجود ہے بلکہ روزبروز بڑھتا جاتا ہے اور اس قرض کے سود کی اقساط کے لئے ہمیں اور قرض کی حاجت ہے ایسے حالات میں دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی نہ ہمارے حکمران آپس کی رنجشیں بھلا رہے ہیں نہ ہی ہم عوام ہی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے حالات بہتر ہو سکیں اگر ہر شہری صرف روزانہ ایک کام کرے کہ ہر صبح صرف اپنے گھر کے سامنے صفائی کر لے تو پواراپاکستان صاف ستھرا ہوسکتا ہے لیکن نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے ہماری ایسی رہنمائی کی کہ منزل تو کہیں دور، ہم نشان منزل ہی پاتے اور ہم نے خود بھی منزلوں کا تعین کرنا نہیں چاہا نتیجتاً آزادی کے آج ستتر سالوں بعد بھی ہم محروم تمنا ہیں۔