فوج کا احتساب شکنجہ اور جنرل فیض حمید کا انجام
لگتا ہے معاملات منطقی انجام کی طرف چلنا شروع ہو گئے ہیں ممکن ہے ایسا پہلے سے ہو رہا ہو،معاملات اس سمت میں چل رہے ہوں ذمہ داران معاملات کو پہلے ہی حتمی انجام کی طرف لے جا رہے ہوں،لیکن جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے آغاز سے عامتہ الناس کو پتہ چلا کہ معاملات کس طرف جا رہے ہیں۔انہیں سپریم کورٹ کی ہدایات بلکہ احکامات کے نتیجے میں کی گئی ایک انکوائری/ تحقیقات کے بعد پورے یقین کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں شخصی طور پر ملوث رہے ہیں۔انہوں نے اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک شہری کے ساتھ ناانصافی کی اس سے قیمتی اشیاء بشمول سونا چھینا،پھر اس کے بعد جنرل صاحب کے بھائی نے بھی اس معاملے میں کردار ادا کیا۔اس شہری نے سپریم کورٹ میں درخواست برائے داد رسی دی،سپریم کورٹ نے فوج کو ہدایات دیں کہ وہ اپنے ملازم کے خلاف درخواست پر ایکشن لے،تحقیقات کرے اور معاملے کو حتمی انجام تک پہنچائے۔فوج اپنے نظام کو حرکت میں لائی، تحقیقات ہوئیں۔جنرل صاحب شخصی طور پر اس معاملے میں ملوث پائے گئے اور پھر انہیں گرفتار کیا گیا اور کورٹ مارشل کا آغاز ہو گیا ہے۔
اس بارے میں تو کوئی شک نہیں کہ فوج کا نظام احتساب فول پروف ہے جب بھی اسے حرکت میں لایا جاتا ہے تو پھر اس کے منطقی انجام نکلتے ہیں اور انصاف صرف ہوتا نہیں ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔موجودہ آرمی چیف واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پہلے جو کچھ بھی ہوتا رہا، درست نہیں۔اب فوج بطور ادارہ سیاست سے باز رہنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور یہ فیصلہ جنرل باجوہ کے دور میں ہوا تھا، موجودہ چیف اس فیصلے میں نہ صرف شامل تھے،بلکہ اس فکرو عمل کے داعی بھی تھے اس لئے اب وہ اپنے ادارے کے فیصلے کے محافظ بھی ہیں۔ویسے پہلے فوج اپنے جرنیلوں کے جرائم پر پردہ ڈالتی رہی ہے۔ جنرل یحییٰ خان سے لے کر جنرل مشرف تک فوجی جرنیل اپنے ساتھیوں کو ہر حالت میں پروٹیکٹ کرتے رہے ہیں۔میجر جنرل سکندر مرزا سے لیکر جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان کی سیاست بازیوں کا محاکمہ نہیں ہو سکا، حتیٰ کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ دلفگار وقوع پذیر ہوا۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوارِ حکمرانی کو بھی دیکھا۔جنرل ضیاء الحق نے شریف خاندان کو سیاست میں کھلایا۔نواز شریف کا کِلہ گاڑھا اور اسے مضبوط کیا۔جنرل مشرف نے چودھریوں کی پرورش کی،انہیں سیاست میں کھلایا ان کا کِلہ گاڑھا اور مضبوط کرنے کی سعی کی۔یہ الگ بات ہے کہ وہ بوجوہ پنپ نہیں سکے، ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے۔ ایک آوارہ بگولے کی طرح چودھری برادران کی ق لیگ پتہ نہیں کہاں ہے۔چودھری پرویز الٰہی بھی گم ہو چکے ہیں، چودھری شجاعت کے بیٹے ن لیگ کے صدقے وزارتوں کے جھولے لے رہے ہیں،ان کی حیثیت ہرگاہ کے برابر بھی نہیں ہے، سیاست میں بالکل بے وزن ہو چکے ہیں، اس کے بعد ہمارے باجوہ صاحب اور دیگر کچھ مہم جو جرنیلوں نے عمران خان کو گود لیا،انہیں کھلایا، کھلاڑی وہ پہلے ہی تھے لیکن سیاست کے کھیل سے مکمل طور پر ناآشنا۔ نواز شریف کی دشمنی میں عمران خان کو آگے لایا گیا۔1996ء سے سیاست میں ناکام رہنے والے کھلاڑی سیاستدان کو2011ء میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے لانچ کیا گیا۔تبدیلی کے بیانیے کے ساتھ ان کی ایمانداری کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ عمران خان کی رونمائی ہوئی۔2018ء میں انہیں جیسے تیسے بھی ممکن ہوا انہیں ایوانِ اقتدار تک پہنچا دیا گیا۔عمران خان نے سیاست دانوں کا تو پہلے ہی بھٹا بٹھا دیا تھا اس لئے اقتدار میں آ کر انہوں نے اپنی خواہشات کو خوب پورا کیا۔ ایماندار ہونے کا جو پروپیگنڈہ کیا گیا تھا عمران خان اور ان کے وسیم اکرم پلس بزدار نے میرٹ کی دھکیاں ہی نہیں بلکہ چیتھڑے اڑائے۔عمران خان اور خاتون اول نے وزیراعظم ہاؤس کو کرپشن کا اڈہ بنا لیا تھا توشہ خانہ پر بھی ہاتھ صاف کیے گئے۔ٹرسٹ بنا کر فراڈ کیا گیا یہ سب کچھ شاید اتنا ہائی لائٹ نہ ہوتا اگر سرکاری معاملات چلتے رہتے، حکومت کا پہیہ گھومتا رہتا۔عمران خان اور ان کی ٹیم نے انتہائی نالائقی کا بھی ثبوت دیا۔ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر آ گیا، پھر عمران خان اپنے آپ کو خانِ اعظم سمجھنے لگے،اپنے آپ کو ریاست سے بھی بالاتر ہونے کے تصور نے انہیں ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن کر دیا۔انہوں نے عسکری معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کر دی۔ جنرل فیض حمید ان کی پسند قرار پائے وہ انہیں اگلا چیف بنانے کے لئے تُل گئے تھے، جنرل فیض حمید نے بھی آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر عمران خان کی حکومت چلانی شروع کر دی تھی وہ اپنے آپ کو اگلا آرمی چیف اِن پائپ لائن سمجھنے لگے تھے۔جنرل باجوہ کی اُنہیں آشیرباد بھی حاصل تھی، عمران خان عاصم منیر کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے ادارے کے سربراہ کے طور پر وزیراعظم کو مطلع کیا تھا کہ میگا کرپشن کے ڈانڈے وزیراعظم ہاؤس سے مل رہے ہیں۔یہ بات عمران خان کو پسند نہیں آئی انہوں نے عاصم منیر کو ہٹا کر جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا۔فیض حمید نے عمران خان کو سپورٹ کرنے کے لئے تمام آئینی و غیر آئینی اقدامات کئے وہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے،بلکہ دیوار میں چننے کے لئے آخری حد تک گئے۔پھر جب وہ چیف آف آرمی سٹاف نہ بن سکے تو انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی،لیکن وہ اپنے پرانے باس کے لئے کام کرتے رہے،ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے آرمی ایکٹ کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھیں۔ان کا نام9مئی کے واقعات کے حوالے سے بھی لیا جاتا رہا ہے دیگر کئی نامناسب اور قابل گرفت سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ثابت ہونے کے بعد اُنہیں گرفتار کرنے اور ان پر کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، پوری قوم کو یقین ہے کہ انہیں تحقیقات کر کے اور ثبوت ہونے کے بعد ہی گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ فوج، ہمارے سول اداروں کی طرح اٹکل بچو کام نہی کرتی ہے آرمی میں احتساب کا نظام موثر اور نافذالعمل ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب جنرل فیض حمید کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملے گی اور فوج2016ء سے شروع معاملات کو حتمی اندا ز میں انجام تک پہنچا کر ہی دم لے گی۔فوج کی سیاست سے علیحدگی جاری رہے گی اور جنرل باجوہ کے دور میں شروع کردہ ”سیاست سے علیحدگی“ کی پالیسی جاری رہے گی اور فوج اپنے آئینی و قانونی فرائض ادا کرتی رہے گی۔