تحریک پاکستان اور اسلام (1)

تحریک پاکستان اور اسلام (1)
تحریک پاکستان اور اسلام (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا پاکستان اسلام کے لئے بنایا گیا تھا یا مسلمانوں کے لئے؟ اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے ہمارے بیشتر دانشور قلمکار غلط بحثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُن کا رویہ آرزومندانہ اور خودستائی پر مبنی ہوتا ہے، اس لئے وہ حقیقت کو پانے کی بجائے اس سے دُور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ مسلمان اور اسلام ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہیں۔ اگر پاکستان اسلام کے لئے بنایا گیا تھا تو بہرحال یہ مسلمانوں کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام پر لکھتے وقت جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اسلام پر خود عمل پیرا ہوں یا نہ ہوں، اُس کو اپنے ہردکھ، درد کا مداوا سمجھتے ہیں۔ ہمارے علمائے دین کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام ایک بلاوجود نظریہ نہیں ،بلکہ اسلام وہی ہے جو ہماری زندگیوں میں رائج ہے۔
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ ایک معروف قلمکار اس طرح رقمطراز ہوتے ہیں کہ ”جب تحریک پاکستان کا اصل محرک دو قومی نظریے کی بنیاد مذہب تھا تو اس پر مبنی تحریک پاکستان کے مقاصد میں سے ہم مذہب کے عنصر کو کس طرح خارج کر سکتے ہیں؟ حالانکہ کوئی مسلمان بھی اسلام کو اپنی زندگی سے خارج نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مبین حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کے زوردار ریلے کا دارومدار فقط اس بات پر تھا کہ ہندوستان کا ہر مسلمان، خواہ وہ کٹر ہو یا کانوں میں مندریاں پہنے ہوئے ایک ملنگ، اس بات پر متفق تھا کہ وہ ایک مسلمان ہے جبکہ اس کے مدمقابل ہندو کافر ہے۔ اسی طرز فکر سے مولانا شبیر احمد عثمانی نے فرنٹیئر (خیبر پختونخوا) میں کانگریسی علما کو قابو کیا۔ انہوں نے اُن کے سامنے ایک طرف قرآن رکھ دیا اور دوسری طرف گاندھی ٹوپی اور اُن سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو چُن لیں جس پر فرنٹیئر کے علماءکو یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ استغفراللہ! ہم قرآن کو چُنتے ہیں۔
یہ محترم قلمکار ایک طرف تو فرماتے ہیں کہ پاکستان کا مطالبہ نفاذ اسلام پر مبنی تھا تو دوسرے لمحے یہ فرمانے سے گریز نہیں کرتے کہ مسلم لیگی قیادت اس حوالے سے بالکل صاف ذہن نہیں تھی کہ اسلام کو پاکستان کی دستوری اور اجتماعی زندگی کی بنیاد کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے لئے تھا، نہ کہ اسلام کے لئے۔ اس وقت مسلمانوں کی قیادت کے پاس نفاذ اسلام کا کوئی واضح اور مربوط نقشہ نہیں تھا۔ حضرت قائداعظمؒ ہمیشہ یہی فرماتے رہے کہ مَیں نے آپ کو مسجد کے لئے جگہ لے دی ہے، پاکستان بننے پر آپ اس مسجد کے خدوخال متعین کر لیں۔ صدحیف کہ پینسٹھ سال گزرجانے کے بعد بھی ہم پاکستانی اس مسجد کے خدوخال متفقہ طور پر متعین نہیں کر پائے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ علمائے دین جو قیام پاکستان کے سراسر مخالف تھے، پاکستان بننے پر اُس میں نفاذ اسلام کے بڑے داعی بن گئے۔ انہوں نے حکومت پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے نفاذ اسلام کے بلند بانگ نعرے بلند کئے۔
ہر بڑا اسلامی مفکر حضرت قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار کی روشنی میں پاکستان میں نفاذ اسلام کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش پر اصرار کرتا ہے، مگر جہاں تک مَیں جانتا ہوں ،کسی نے بھی ابھی تک پاکستان میں ان اکابرین کے افکار پر مبنی نفاذ اسلام کا مربوط نقشہ پیش نہیں کیا، نہ ہی کسی نے یہ بتایا ہے کہ اسلامی عدل اجتماعی کے خدوخال کیا ہوں گے؟ پاکستان کے علماءاور دینی اکابرین پینسٹھ سال گزرجانے کے بعد فیصلہ نہیں کر پائے کہ اسلامی نظام ہے کیا؟ آج بھی اس موضوع پر کوئی محفل سجا لیں، پھر دیکھیں ان کا آپس میں دست و گریباں ہو جانا۔ ہمارے علماءکو اس بات کا بھی کچھ شعور نہیں کہ فقہی نظام کی قانونی موشگافیاں اور ان کے پیدا کئے ہوئے مسائل یہودی طرز فکر کی نقل ہیں۔ جہاں تک حضرت قائداعظمؒ کا تعلق ہے تو اُن کے قریبی ساتھی امیر محمد خان راجہ محمود آباد کے مضمون ”چند یادیں“ سے یہ اقتباس قابل غور ہے:”لمبی زندگی اور فکری پختگی سیاسی تحریکوں کے لئے بھی اتنی اہم ہے ،جتنی انسانوں کے لئے۔ جس تیزی اور تندی کے ساتھ مسلم لیگ کو دس سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کے ہدف کی طرف بڑھنا پڑا، اس میں تنظیم کی تطہیر نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ کو اپنی تیز رفت کامیابی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ اس کی بینڈ گاڑی پر مختلف انواع کے لوگ سوار ہو گئے، ان میں سے کچھ لوگ قدامت پسند تھے، جو مسلم لیگ کے ترقی پسند پروگرام میں رکاوٹ بنے۔ پھر اس میں جاگیردار اور سرمایہ دار بھی آ گھسے، جنہوں نے قدامت پسند لوگوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ مسلم لیگ کی تیز رفتار بینڈ گاڑی پر رجعت پسند لوگ بھی آن سوار ہوئے، جن کی فکر ایام خلافت سے آگے نہیں بڑھی تھی اور جن کے ذہن میں جدید ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایک گروہ یونیورسٹی لیکچررز کا بھی تھا جو پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا خواہاں تھا۔ مَیں (راجہ محمودآباد) بھی اس گروہ سے متاثر تھا۔ مَیں نے اس سوچ کو اپنی تقاریر میں بڑے زور شور کے ساتھ اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ان خیالات کے ابلاغ کو پسند نہ فرمایا اور مجھے اس قسم کی تقاریر سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ مجھے ان خیالات کے اظہار میں قائداعظم کی تائید حاصل ہے۔ مَیں خیالات کے اس اختلاف کی وجہ سے قائداعظمؒ سے دور ہوتا چلا گیا،مگر اب جب مَیں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی غلطی کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے“۔

 فہم اسلام کے لئے ہمارا رویہ ضابطہ پرستی کا ہے ،ہم اس کے سادہ احکام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ دقیق نظریات اور چھپے ہوئے نظاموں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور ہمارے علماءاللہ تعالیٰ کے سادہ سے پیغام کو اتنا پیچیدہ کر دیتے ہیں کہ وہ ہرکس و عام کے فہم سے بالا تر ہو جاتا ہے۔ اسلام کا سادہ اور عام فہم پیغام حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ نے بھی ہمیں سمجھایا تھا، مگر ہم پھر بھی اس کو سمجھ نہیں پائے۔ ہرچندکہ ریاست اسلام کے بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے، مگر قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام سے مختلف ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک نسل ہے، نہ اشتراک زبان، نہ اشتراک وطن اور نہ ہی اقتصادی اہداف کا اشتراک، بلکہ ہم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی ایک۱ Brotherhood ہیں۔ بقول قائداعظمؒ اسلامی حکومت میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع ریاست نہیں‘ اللہ کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی راستہ قرآن کے احکام اور اصول ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں وہ لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے جو کسی خطے میں اسلامی نظام کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی معاشرہ کبھی بھی اسلامی جماعتوں یا تحریکوں کے ذریعے قائم نہیںہوا۔ اسلامی معاشرہ صرف ان افعال و افکار اور محسوسات کی ضمنی پیداوار۱ (by product) کے طور پر ابھر سکتا ہے، جن کا مقصد انسانی زندگی کے حوادث سے وراءاللہ کی خوشنودی کا حصول ہو.... والذین جاھدوا فینا لنھدینہم سبلنا ....(سورة 92 آیت 96: اور وہ لوگ جو جدوجہد کرتے ہیں، ہماری خاطر تو ہم ضرور دکھائیں گے انہیں اپنے راستے)....کا تعلق جتنا تقویٰ و پارسائی سے ہے، اتنا ہی سیاسی عمل سے بھی ہے، لہٰذا نرے عملی اقدامات، بلکہ اعمال و افعال کی بڑی سے بڑی تعداد بھی ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں کر سکتی، جب تک اس میں یہ بنیادی شرط مفقود رہے گی، مگر ہم منافقت میں اپنی ترجیحات اور عقائد کا کھل کر اعلان نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک ذہنی دھندلکے میں زندگی گزار رہے ہیں۔     (جاری ہے)  ٭




جاری ہے
اسلامی نظریاتی تحریک کا ماڈل اس کے علاوہ اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا کہ وہ مومنین اور صالحین کی ایک مختصر سی جماعت۱ (Party Cader) کے ذریعے پوری مسلمان قوم کو متحرک کر کے سیاسی غلبہ حاصل کر لے اور قانون اسلام نافذ کر کے باقی ماندہ قوم کی اصلاح کر دے۔ اس طرح اسلامی نظریاتی تحریک کا مطمح نظر نفاذ اسلام ہوتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول جماعت اسلامی مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی جماعت نہیں، بلکہ خدائی فوجداروں کی ایک جماعت ہے اور جو کام جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہے، وہ حکومت کے اقتدار پر قبضہ کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس علامہ محمد اقبالؒ احیائے اسلام کے لئے ثقافتی تحریک کو چُنتے ہیں، جس کا مطمح نظر نفوذ اسلام ہوتا ہے۔ ثقافتی تحریک کا مقصود جمہور کی فکری‘ معاشی اور سیاسی اصلاح کے ذریعے تبدیلی لانا ہوتا ہے۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی ہم نے علامہ اقبالؒ کی اُمیدوں کے برعکس اسلام کی عالمگیر اخوت اور احترام آدمیت کے آفاقی پیغام کو بھلا کر دنیوی زندگی کے اغراض و مقاصد کو اپنا لیا۔ اس رویے کی ترویج میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی نظریاتی دینداری نے مرکزی کردار ادا کیا۔ حضرت مولانا نے دین اسلام کی اصلی روایت کو ، جس کا دارو مدار تعلق باللہ ، تزکیہ¿ نفس ، رواداری اور اخلاص پر تھا، نظریہ ، جماعت ، تصادم اور انقلاب میں بدل دیا۔ حضرت مولانا کا علم الکلام اتنا زور دار اور عام فہم تھا کہ مصورِ پاکستان کی فکر اس میں دب کر رہ گئی اور تقریباً پوری قوم نے روحانیت اور تعلق باللہ کو پس پشت ڈال کر محسوسات کی دنیا کو اپنالیا۔دوسری طرف آج کی جمہوریت ،جس کا اصل کام لوگوں کے دل موہ لینا ہونا چاہیے تھا ، ایسا کر نہیں پائی اور ہمارا نظام تعلیم و تربیت ایسے افراد پیدا نہیں کر سکا، جن کی آرزو اور تمنا ہم میں سے ہر کوئی اپنے دل میں لئے ہوئے ہے۔
اسلامی تاریخ کے ایک معروف سکالر سید ولی رضا نصر کے مطابق مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کو کلی طور پر آئیڈیالوجی میں تبدیل کر دیا۔ آئیڈیالوجی کا ایک مہلک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے بھیجے ہوئے دین کے زندہ تصور اور تجربے کو تعقّل کے ذریعے اس کے جوہر۱ (Essence) میں بیان کر کے لوگوں کو ان کے دین سے بیگانہ۱ (Alienate) کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس ثقافتی تحریک کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ ادھوری بھی رہ جائے ،اس کا نقصان نہیں ہوتا، جبکہ نظریاتی تحریک اگر ادھوری رہ جائے تو معاشرتی تضادات اور تصادم کو جنم دیتی ہے۔ نظریاتی تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ قوم کو متحرک رکھنا پڑتا ہے اور اس میں انقلابی اور عسکری روح کو بیدار کرنا پڑتا ہے، جبکہ ثقافتی تحریک کا دارومدار سماجی اور اخلاقی اقدار اور معاشرت و تمدن پر ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی اصل تعمیر اسلام کے نفوذ سے ہوتی ہے نہ کہ نفاذ سے، کیونکہ اسلام صحیح معنوں میں تبھی رائج ہوتا ہے، جب عقیدہ ثقافت میں ڈھلتا ہے اور ثقافت تمدن میں، تمدن ریاست میں اور ریاست ملت میں۔
دراصل جب آپ کسی دین الٰہی کو ریاست، جو انسان کا بنایا ہوا نظام ہوتا ہے،کے ساتھ۱ Equate کرتے ہیں تو آپ تشدد کے بیج بوتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے آپ فعال سیاسی کارکنوں کی ایک جماعت کھڑی کرتے ہیں جو اللہ والے نہیں ہوتے۔ جب آپ اسلامی ریاست کے قیام میں ناکام ہو جاتے ہیں تو یہ تشدد کو جنم دیتی ہے، چنانچہ جب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اپنی جماعت اسلامی کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام میں ناکام ہو گئے تو ان کی نقالی میں صوفی محمد اور اس جیسوں نے سوات اور فاٹا میں وہ ریاست قائم کر دی۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان کی اس ریاست کا حقیقی اسلامی ریاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، چنانچہ صوفی محمد اور ان کے کارکن نہ تو اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکے اور نہ ہی وہ انسانوں کو خوش کر سکے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ ملک، جس نے عالم اسلام کے لئے ایک روشنی کا مینار بننا تھا، ایک فرسودہ اور مسخ شدہ اسلام کا قیدی بن کے رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -