سچائی طاقت ہے
حاکمیت کا تخت صرف راستی روئستی کے ستونوں پر ہی مضبوطی سے قائم رہ سکتا ہے۔ حکمران اس وقت تک اپنے آپ کو مضبوط نہیں بنا سکتے،جب تک عوام کا مکمل اعتماد حاصل نہیں کر لیتے۔کاش ہمارے حکمران تاریخ کی کتابوں کو پڑھنے کا شوق رکھتے تو یہ جاننے کے قابل ہو جاتے کہ امیر تیمور کو کیوں تاریخ میں عظیم ترین حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے، اس کے پاس کون سی ایسی طاقت تھی کہ اس نے چون(54) ملک فتح کر لئے اور تیمور دی گریٹ کہلایا۔ وہ طاقت ”راستی روئستی“ تھی۔ امیر تیمور کی مہر پر فارسی کے دو لفظ کنندہ تھے....”راستی روئستی“.... ( سچائی طاقت ہے)....حکمرانوں کی اصل طاقت سچائی ہوتی ہے۔ سچ کے بغیر حکمران عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکتے۔ جن حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل نہ ہو، وہ دنیا کے بدنصیب حکمران ہوتے ہیں۔ ان کا اقتدار عوامی حمایت سے محروم ہوتا ہے اور اقتدار کا تخت دریا کے تیز پانی پر رکھے لکڑی کے تختے کی طرح ہوتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے پاکستان کے گمشدہ شہریوں کو انصاف دینے کے لئے ہر قانونی حربہ استعمال کیا، آخر میں وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وزیراعظم اگر چاہیں تو ایک دن میں تمام گمشدہ لوگ بازیاب کرائے جا سکتے ہیں، انہیں زندگی بھر افسوس رہے گا کہ وہ ان تمام لوگوں کو انصاف نہ دے سکے،ان سے طاقتور لوگ بھی ہیں جو ان کے احکامات کو نظر انداز کرتے رہے، قانون، قانون نافذ کرنے والوں کے سامنے تماشہ بن گیا۔ وزیراعظم کو اپنے شہریوںں کو انصاف دلانے کے لئے اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں۔ قوم کو سچ بتائیں کہ اصل حقیقت کیا ہے، کیوں یہ لوگ بغیر کسی مقدمے کے ٹارچر سیلوں میں بند ہیں؟ اگر وزیراعظم قانون پر عمل درآمد نہیں کرا سکتے، تو پھر کون کرائے گا؟ گمشدہ لوگوں کے خاندانوں کو کیوں طویل عرصے سے اذیت دی جا رہی ہے،ان لوگوں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں ثبوتوں سمیت انصاف کے کٹہرے میں پیش کیا جائے۔ کیا ان کا جرم پرویز مشرف سے بھی بڑا ہے، جسے آئین توڑنے کے الزام کے باوجود تمام قانونی مدد فراہم کی جا رہی ہے اور اسے عدالتوں میں اپنے خلاف لگنے والے الزام کو غلط ثابت کرنے کے لئے مکمل آزادی حاصل ہے، جبکہ کوہلو، گوادر، لورا لائی اور چمن کے لوگوں کو کیوں یہ آئینی سہولت حاصل نہیں۔ یہ لوگ کس قانون کے تحت گرفتار ہیں اور ان کو عدالتوں میں پیش کر کے ان کا منصفانہ ٹرائل کیوں نہیں کیا جا رہا؟
وزیراعظم صاحب قوم کو سچ بتائیں کہ کیا وہ کہیں بے بس تو نہیں ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ تو بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں، ان کی پارٹی کے سینئر ممبر میر حاصل بزنجو نے اعتراف کیا ہے کہ ہم بے بس ہیں ۔ ہمارے پاس صرف نام کی وزارت اعلیٰ ہے، اختیارات کہیں اور ہیں۔ ڈرون حملوں کا معمہ بھی جل ہونا چاہئے۔ امریکی کہتے ہیں کہ یہ سب حملے پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہوتے ہیں اور پاکستان نے ہمیں اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اجازت دے رکھی ہے۔ اگر حقیقتاً ایسا ہے تو قوم کو اعتماد میں لیں کہ کس بنا پر اور کن لوگوں کے خلاف ڈرون حملوں کا درپردہ معاہدہ ہوا ہے تاکہ کنفیوژن دور ہو۔ عوام کی اپنے حکمرانوں پر روز بروز بڑھتی بداعتمادی ختم ہو۔ رینٹل پاور، این آئی سی ایل، اولڈ ایج بینیفٹ جیسے سکینڈل بھی متعلقہ وزارتوں کے ذریعے عوام کے علم میں لائے جائیں کہ کس طرح اس ملک کو لوٹنے کی کوشش کی گئی؟ آئی پی پیز کو دیئے گئے 500 ارب روپے کی خطیر رقم کے بارے میں بھی عوام کو بتایا جائے کہ کن ذرائع سے کن لوگوں کو دیئے گئے کہ حکمرانوں کے پاس قوم کی امانتیں رکھی ہوتی ہیں۔ اگر حکمران یہ پیسہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کر رہے ہیں تو انہیں سچ بتانے سے گریز کیوں کیا جاتا ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ، عام الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں سمیت ہر سچ عوام کے سامنے لائیں۔ ہمارا حکمران طبقہ ہر سچ کو عوام سے دور رکھنے کو حکمت سمجھتا ہے، حالانکہ یہ سرا سر حماقت ہے۔ سچ عوام کے سامنے لانا چاہئے، اس پر توانا بحث و مباحثہ کرا کے اپنی خامیوں، غلطیوں اور نااہلیوں کی اصلاح کی جانی چاہئے تاکہ مستقبل میں ہم ایسے حادثات اور سانحات سے محفوظ رہیں۔ ہمارے ہاں بڑی ناپختہ سوچ ہے کہ سچ کو عوام سے چھپا کر رکھا جائے، اس سے غلطیوں اور خامیوں کی اصلاح نہیں ہو پاتی اور ہم بار بار وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں اور آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو چلنے لگتے ہیں۔ عوام کو جب حکمرانوں کے جھوٹ کا علم ہوتا ہے تو وہ ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور حکمران عوام کی حمایت سے محروم ہو کر خوفزدہ اور کمزور ہو کر ہر وہ کام کرنے لگتے ہیں، جو انہیں عروج کے سفر کی بجائے گہری کھائی کی طرف لے جاتا ہے، جھوٹ کو طاقت سمجھنا دیوانہ پن ہے۔
وزیراعظم اور اُن کی کابینہ سے گزارش ہے کہ اگر آپ لوگ قوم کو سچ بتا دیں گے اور اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے، تو عوام، میڈیا اور عدالتیں آپ کے ساتھ کھڑی ہوں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ رام کہانیاں سنانے یا جھوٹ بولنے کی بجائے ”راستی روئستی“ کو اپنا نصب العین بنائیں پھر دیکھیں اقتدار کس قدر مضبوط اور مثبت ثابت ہوتا ہے۔ ٭
