مولانا نورانی کی برسی اور جمعیت علماءپاکستان!

مولانا نورانی کی برسی اور جمعیت علماءپاکستان!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جمعیت علماءپاکستان (ن) نے گزشتہ روز یوم نورانی منایا، جمعیت کے مرحوم صدر مولانا شاہ احمد نوارنی کی برسی پر جماعت، مسلک اور ملک و قوم کے لئے ان کی خدمات کو سراہا گیا لاہور میں ہونے والی تقریب سیکریٹری قاری زوار بہادر کے اہتمام میں ہوئی اور مرکزی خطاب بھی انہی کا تھا یوم نورانی منانے کی تجویز قاری زوار بہادر نے دی جسے منظور کرنے میں کسی کو ہچکچاہٹ بھی نہ ہوئی کہ اکابر سے کسی کو کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ جمعیت والوں کو یہ خیال آیا اور اس پر عمل بھی کر لیا گیا لیکن قاری زوار بہادر وعدے کے بعد بھی شاید بھول گئے اور اس جمعیت علماءپاکستان کے بانی صدر علامہ سید ابوالحسنات کا ذکر تک نہیں کیا گیا حالانکہ ان کا یوم وفات بھی یاد رکھا جانا چاہئے یہ شاید اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ علامہ ابو الحسنات نے جمعیت کو دینی اور مسلکی حوالے سے تو زندہ رکھا تاہم اسے ملکی سیاست سے دور رکھا تھا جبکہ مولانا شاہ احمد نورانی نے بہر حال 1970ءوالی اسمبلی میں کارنامے انجام دیئے اور پھر 1977ءمیں تحریک نظام مصطفیﷺ بھی ان کاوشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی وہ اس میں بھی بہت نمایاں تھے اور اپنی حیات تک بڑی سرگرمی سے سیاست میں ہلچل پیدا کرتے رہے۔

جمعیت علماءپاکستان بھی بعض دوسری جماعتوں کی طرح علامہ ابوالحسنات کی رحلت کے بعد دھڑے بندی کا شکار رہی۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور سید احمد سعید کاظمی جیسے بزرگ بھی اسے ایک پلیٹ فارم پر نہ رکھ سکے اور اب تو اس جماعت کے کئی حصے ہو چکے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اطلاع ملی کہ شاید اکابر کو کچھ ہوش آئی اور انہوں نے ایک بار پھر جمعیت کو کیا بلکہ اپنے مسلک کی تمام جماعتوں کو پھر سے متحد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عقیدت مند ابھی اس خبر کی خوشی کا ذائقہ ہی محسوس کر رہے تھے کہ یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری کہ حضرت نورانی والی جمعیت میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔ صدر ابوالخیر نے سیکریٹری جنرل قاری زوار بہادر پر نکتہ چینی کی اور ان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا جواباً قاری زوار بہادر نے اپنے موقف پر اصرار کیا اور جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا مقصد موجودہ تنظیمی ڈھانچے کو توڑ کر نیچے سے اوپر کی سطح تک انتخابات کرانا بتایا گیا۔ ان خبروں کی اشاعت کے بعد پھر کوئی خبر نظر سے نہیں گزری تاہم مولانا شاہ احمد نورانی کی برسی کے حوالے سے مرکزی تقریب لاہور میں ہوئی۔ اس میں صدر ابوالخیر نے شرکت نہیں کی۔
مولانا شاہ احمد نورانی آج ہم میں نہیں ان کی یادیں موجود ہیں، انہوں نے سیاست میں بڑا ہی بھرپور وقت گزارا اور کئی کامیابیاں حاصل کیں یوں بھی وہ مقبول شخصیت تھے جن کے ساتھ ہمارا روحانی سا لگاﺅ تھا وہ بھی شفقت فرماتے اور بے تکلفی سے بات کرتے تھے۔ اصولی طور پر ان کی برسی سے تو اس حوالے سے خود مولانا کی ذات ہی کے بارے میں لکھنا چاہئے لیکن خبریں ایسی آئیں کہ جمعیت کی تقسیم کا بھی ذکر کرنا پڑا جمعیت علماءپاکستان کا قیام، پاکستان بن جانے کے بعد عمل میں آیا، جب علامہ ابوالحسنات کو خیال آیا کہ اہل سنت والجماعت (بریلوی) نے بنارس سنی کانفرنس منعقد کرتے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور قیام پاکستان کی حمایت کی اور پھر تحریک پاکستان میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ چنانچہ جب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا تو بزرگوں نے خیال کیا کہ خدمت انجام دی جا چکی تاہم علامہ ابوالحسنات نے محسوس کیا کہ ملک مل جانے کے بعد اس کے دعویداروں کی تعداد یکایک بڑھ گئی ہے اور علماءاہل سنت کا کردار مدھم ہونے لگا ہے تو انہوں نے جمعیت علماءپاکستان کی بنیاد رکھی جس کا مقصد پاکستان کی خدمت و حمایت کے علاوہ مسلک اہل سنت کے مفادات کا تحفظ تھا۔ علامہ ابوالحسنات اپنی وفات تک اس کے صدر رہے۔

 ان کی وفات کے بعد جب مولانا عبدالحامد بدایونی کو صدر بنایا گیا تو محترم صاحبزادہ فیض الحسن آف آلو مہار شریف نے مخالفت کی اور اپنا دھڑا بنا کر اس کے صدر بن گئے، اس دور میں اور اس کے بعد بھی جمعیت کو متحد کرنے کے لئے کئی کوششیں کی گئیں بار آور نہ ہوئیں بلکہ اور دھڑے بن گئے پھر وہ وقت آیا جب کرسی صدارت پر مولانا شاہ احمد نورانی تشریف فرما ہوئے یہ دور ایوب خان کے خلاف تحریکوں کا تھا۔ مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت نے اپنا حصہ ڈالا اور پھر جمعیت کے جماعتی انتخابات کی وجہ سے مولانا عبدالستار خان نیازی کی خدمات حاصل ہو گئیں وہ جمعیت کے سیکریٹری جنرل بنے یوں نورانی، نیازی جوڑی نے بہت نمایاں مقام حاصل کیا۔ 1970ءکے انتخابات میں مولانا شاہ احمد نورانی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے اور انہوں نے اس حیثیت میں قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر بہت کام کیا۔ حتیٰ کہ 1973ءکے آئین میں ترامیم کرائیںاور قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا۔ اس دور کی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی ایک بڑے سیاست دان کی حیثیت میں سامنے آئے۔
اس کے بعد 1977ءمیں تحریک نظام مصطفیٰ بھی انہی کا کمال تھا کہ بنیادی طور پر پاکستان قومی اتحاد کا قیام پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے عمل میں آیا تھا اور انتخابات میں یہی ہوا تاہم پی۔ این۔ اے نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کئے اور نئے انتخابات کے لئے تحریک کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان قومی اتحاد کے قیام کے وقت صدر کا عہدہ جمعیت علماءاسلام کو ملا تو سیکریٹری جنرل جمعیت علماءپاکستان سے لئے گئے جو معروف وکیل رفیق احمد باجوہ تھے، اس تحریک کے دوران رفیق باجوہ کے جوہر بھی کھل کر سامنے آئے اور وہ ایک بڑے مقرر کے طور پر ابھرے۔ ہمیں یاد ہے کہ دہلی دروازہ کے باہر میلاد چوک میں پی این اے کا جلسہ تھا جس سے خطاب کرتے وقت محترم باجوہ نے نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا نعرہ لگایا اور پھر یہ نعرہ پی این اے کا متفقہ مطالبہ بن گیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی بھی فعال تھے اس عرصہ میں ایک خاص حکمت عملی کے ذریعے رفیق احمد باجوہ کی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ملاقات کرائی گئی۔ اطلاع ملنے پر پی این اے کا سربراہی اجلاس طلب کر کے برہمی کا اظہار کیا گیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے ہنگامی فیصلہ کیا اور رفیق احمد باجوہ کو اپنی جماعت کی سیکریٹری جنرل شپ سے فارغ کر دیا وہ قومی اتحاد کا عہدہ بھی کھو بیٹھے اس پر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد نامزد ہوئے تھے۔
مولانا شاہ احمد نورانی درویش صفت شخصیت اور دنیاوی لالچ سے ماورا تھے۔ وہ بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ مولانا عبدالستار نیازی سے ان کو خاص نسبت اور انسیت تھی، لیکن ان کا یہ بھائی چارہ کچھ آنکھوں میں کھٹکھتا بھی تھا، جنہوں نے نیازی کو نورانی سے الگ کر دیا اور جمعیت کا نیازی گروپ بھی بن گیا۔ تب سے اب تک جمعیت متحد نہیں ہوئی کہ اب نئی شکل سامنے آ گئی ہے یہ صورت حال ناخوشگوار ہے۔ اکابرین جمعیت کو اختلاف پر قابو پانا ہو گا، ورنہ جماعت کو نقصان ہو گا۔

مزید :

کالم -