صحن میں سے راستہ
پاکستان کا شمار بہترین محل وقوع رکھنے والے ملکوں میں ہوتا ہے،یہ اعزازا بھارت کو حاصل نہیں۔ پاکستان کے قدرتی راستے دُنیا کے امیر ترین خطوں کی طرف نکلتے ہیں اور وہ اس حوالے سے بھارت کے سامنے دیوار کی مانند کھڑا ہے۔اس دیوار میں شگاف ڈال کر اپنی تجارت پاکستان سے دوسری طرف تک لے جانا بھارت کی خواہش اور ضرورت رہی ہے اور اب بھی ہے۔ پاکستان اپنا سامانِ تجارت صرف ایران سے گزر کر ترکی اور دیگر یورپی منڈیوں تک پہنچا سکتا ہے، اسی طرح صرف افغانستان سے گزر کر اسے وسط ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ ایران کے راستے تجارت میں پاکستان کو کبھی کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی، جبکہ وسط ایشیا تک رسل و رسائل کے لئے افغانستان میں ریلوے لائن اور سڑک کے ذرائع کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انتظامات مکمل ہونے پر پاکستانی مصنوعات کو ایک اور اہم منڈی مل جائے گی، جس سے مزید فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات پہلے سے موجود ہیں۔
پاکستان کے برعکس بھارت کی براہِ راست رسائی بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال وغیرہ تک ہے،جو اس کے مال کی بڑی منڈیاں نہیں بن سکتے، لہٰذا وہ تجارت کے لئے پاکستان کے راستے یورپی اور وسط ایشیائی منڈیوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ تجارتی سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے سڑکوں کو سب سے سستا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جو ترقی یافتہ خطوں تک رسائی کے لئے بھارت کو میسر نہیں، جبکہ پاکستان کو دستیاب ہے۔ پاکستان کا متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک تک سمندری راستہ محض چند گھنٹوں کا ہے۔ یہ بحری راستہ بھی بھارت کو میسر نہیں، اس کے جہازوں کو پورے بحرہند اور بحیرۂ عرب میں سے گزر کر عرب خطے تک پہنچنا پڑتا ہے اور یہ ایک مہنگا سودا ہے۔
بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ تجارت کے لئے پاکستان کے زمینی اور بحری راستے استعمال کرے، اس مقصد کے لئے وہ پاکستانی حکومتوں پر ڈورے ڈالنے کی تاک میں رہتا ہے، مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگرچہ بعض پاکستانی حکمرانوں کو بھارت کے ساتھ تجارت کی خواہش تڑپاتی رہی ہے اور وہ اس دشمن ملک کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ کبھی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ سستی ترین لیبر پاور میسر ہونے کی وجہ سے ان کی پاکستان میں قبولیت کے بعد پاکستانی مصنوعات کی اپنے ہی ملک میں پذیرائی کس حد تک رہ جائے گی؟
بھارت میں غربت زوروں پر ہے، وہ غربت کی بنیاد پر متعدد عالمی اداروں سے قرضہ بھی لے رہا ہے،اس صورت میں یہ پراپیگنڈہ قطعی بے بنیاد ہے کہ بھارت نے بہت ترقی کی ہے۔جن ملکوں نے ترقی کی ہے ان کے باشندے مزدوری کے لئے بیرونِ ملک نہیں جاتے، جیسے کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی،جاپان اور چین وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بھارت کے تو لاکھوں باشندے روزی کے لئے دوسرے ملکوں میں دھکے کھا رہے ہیں، پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ترقی کی ہے؟ اگر بھارت میں چیزیں سستی ہیں تو یہ وہاں کی خوشحالی کو ظاہر نہیں کرتا،بلکہ علم اقتصادیات کی رُو سے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں لیبر پاور بہت سستی ہے، جس کے باعث مصنوعات بھی سستی ہیں۔سستی بھارتی لیبر پاور نے دوسرے ملکوں میں روزگار کی مارکیٹ خراب کر رکھی ہے۔ وہ اتنے کم معاوضے پر ملازمت قبول کر لیتے ہیں کہ پھر اس کے بعد آجر اس سے زیادہ معاوضہ کسی کو نہیں دیتے۔ بھارتی کارکن اتنے کم معاوضوں کی وجہ سے دبئی جیسی قریبی جگہ سے بھی کئی کئی سال تک وطن واپس نہیں جاتے، ان کے پاس بھارت جا کر بیوی بچوں سے ملنے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے،جو ہوتے ہیں وہ پہلے ہی بیوی بچوں یا والدین کو بھیج چکے ہوتے ہیں، مَیں نے دبئی میں تو کم از کم یہی دیکھا ہے۔
ایک بار وہاں میرے بھارتی دھوبی کا بھائی کئی ہفتے نظر نہ آیا تو مَیں نے اُس کے بارے میں پوچھا: اُس نے کہا کہ بھائی بھارت گیا ہوا ہے،آ اِس لئے نہیں رہا کہ واپسی کے لئے کرائے کے پیسے نہیں ہیں۔ یہ دونوں بھائی مسلمان تھے اور میرا ان کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ تھا۔ بات ہو رہی تھی یورپ اور وسط ایشیا کے ساتھ تجارت کے لئے پاکستان میں سے گزرنے سے متعلق بھارت کی ضرورت اور خواہش کی ۔۔۔جس اس کا اظہار ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آمد پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی کیا۔ کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ان کا ملک پاک افغان تجارت اور تجارتی راہداری کے معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ افغانستان میں تو کوئی بڑے بڑے کارخانے نہیں ہیں، جن کی مصنوعات کی بھارت کو ضرورت ہو اور نہ ہی وہاں کی آبادی اتنی ہے کہ وہ بھارتی مصنوعات کے لئے کوئی بڑی منڈی بن سکے۔ اس سب کچھ کے باوجود بھارت پاکستان کے صحن میں سے راستہ چاہتا ہے تو پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجنا فطری سی بات ہے۔