اورنج لائن میٹرو ٹرین،عوامی منصوبوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا درست نہیں

اورنج لائن میٹرو ٹرین،عوامی منصوبوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا درست نہیں
اورنج لائن میٹرو ٹرین،عوامی منصوبوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا درست نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ بات سب سے اہم ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے لگنے والا منصوبہ عوام کا ہی ہوتا ہے ۔ کسی پارٹی ،کسی شخص یا کسی ادارے کی جاگیر نہیں ہوتا ۔ خبریں سنتے ہوئے لاہور اورنج لائن ٹرین کی خبر سامنے آئی تو کئی سوالات نے ذہن میں جنم لیا۔

جن میں سب سے اہم یہ تھا کہ آخر منصوبے پر 22ماہ کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے ؟تاخیر کے باعث منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ اور اگر آزمائشی طور پر بھی ٹرین کا ارتعاش پیدا ہونے سے تاریخی عمارتوں کو نقصان پر پہنچا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟اگر خدانخواستہ منصوبہ ناکام ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟یہ ایسے سوالات ہیں،جو بیٹھے بٹھائے ہی میرے ذہن میں آئے۔

سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے لاہور اورنج لائن ٹرین منصوبے کی اجازت تودیدی۔ عدالت عظمیٰ نے لاہور کے تاریخی مقامات کے تحفظ کے لئے 30 روز میں اقدامات کرنے کی ہدایت بھی کی۔

اورنج لائن میٹرو ٹرین کی اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ تعمیرات اور ٹرین کے ارتعاش سے تاریخی عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، ارتعاش ان عمارتوں کی برداشت سے زیادہ ہو تو کام فوری روک دیا جائے، حفاظتی اقدامات اور ماہرین کے اطمینان تک کام دوبارہ شروع نہ کیا جائے۔

عدالت نے اپنے حکم میںیہ بھی کہا کہ اورنج ٹرین 2 ہفتوں کے لئے آزمائشی بنیادوں پر چلائی جائے اور ارتعاش کی مانیٹرنگ کی جائے، کلیئرنس سرٹیفکیٹ ملنے تک ٹرین سروس باقاعدہ شروع نہ کی جائے، تاریخی عمارتوں کے قریب ٹرین کی رفتار کم رکھی جائے اور ارتعاش ماپنے کے آلات لگائے جائیں۔

عدالت نے شالیمار گارڈن کے ہائیڈرالک ٹینک کو بحال کرنے، چوبرجی کے اطراف کو گرین بیلٹ بنانے اور زیب النسا مقبرہ کی تزئین وآرائش کا حکم بھی دیا ہے۔


اورنج لائن ٹرین لاہور کے شہریوں کے لئے بہترین سفری سہولت ثابت ہوگی ۔ لیکن عوام کے لئے اربوں روپے کا منصوبہ بھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ چین کے تعاون سے پنجاب حکومت نے 25 اکتوبر 2015 کو شروع کیا۔ابتدائی طور پر 164 ارب روپے کا پراجیکٹ بڑھتا ہوا 260 ارب روپے تک پہنچ گیا۔

28 جنوری 2016 کو منصوبے کے خلاف سول سائٹی سمیت دیگر درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا اور پنجاب حکومت کو تاریخی عمارتوں کی 200 فٹ حدوو میں اورنج لائن منصوبے پر کام سے روک دیا، ان تاریخی عمارتوں میں شالا مار باغ، گلابی باغ گیٹ وے، بدو کا آوا، چوبرجی، زیب النساء کا مقبرہ، لکشمی بلڈنگ، جی پی او، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ، سینٹ اینڈریو چرچ، موج دریا دربار اور مسجد شامل تھیں۔

پنجاب حکومت نے حکم امتناعی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت نے اورنج ٹرین مکمل کرنے کا گرین سگنل دیدیا۔ منصوبے کے 11 مقامات پر ایک سال 10ماہ تک تعمیراتی کام بند رہا لیکن پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر 73.8 فیصد کام مکمل کر لیا گیا۔

قائد اعظم انٹرچینج کے قریب رنگ روڈ کے اوپر سے ٹرین گزارنے کے لئے پل کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے جبکہ ریلوے سٹیشن کے قریب پل کی تعمیر کا 55 فیصد کام بھی مکمل کیا جا چکا ہے۔

پیکیج ون کے 13.4 کلومیٹر ٹریک میں سے 5 کلو میٹرتک پٹڑی بچھانے کا کام، تمام 11 بالائے زمین سٹیشنز جبکہ پیکیج ٹو کے 5 سٹیشنز کا گرے اسٹرکچر مکمل کر کے انہیں الیکٹریکل و مکینیکل ورکس کے لئے چینی کنٹریکٹرز کے حوالے کیا جا چکا ہے۔


حکومتیں عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے اقدامات کرتی رہتی ہیں اور پنجاب حکومت کی کارکردگی اپنی مثال آپ ہے، جس نے عوام کے لئے سفری سہولتوں میں بے پناہ جدت پیدا کی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب میں جتنے منصوبے شروع کئے گئے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔

دیگر صوبوں نے بھی پنجاب کے منصوبوں کی تقلید میں وہی منصوبے اپنے صوبوں میں شروع کئے ہیں۔ اس سے ہی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ عوامی منصوبوں کو صرف سیاسی مخالفت کی بناء پر تنقید کا نشانہ بنایا جا تارہا ۔

خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ہمیشہ عوام کو سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی ہے اور پورے پنجاب تک اس کا دائرہ کار بڑھایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے عوام بھی خادم اعلیٰ سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور ان کی پارٹی کو ووٹ کے طاقت سے ہی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

سیاسی پارٹیاں اپنے مخالفین پر تیروں کی بارش تو کرتی ہی رہتی ہیں، لیکن سیاسی مخالفت عوامی منصوبوں میں بھی کھل کر سامنے آئی ہے جو تشویش کی بات ہے ۔

جمہوری حکومتوں میں عوامی مفاد کے منصوبوں میں سیاسی مخالفت بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ منصوبے کے نقائص اپوزیشن کی جماعتیں سامنے لائیں اور اس کی بہتری کی تجاویز دیں ۔اورنج ٹرین کا منصوبہ اربوں روپے کا عوامی مفاد کامنصوبہ ہے یہ کسی سیاسی پارٹی کا مرکز یا دفتر یا پلازہ نہیں، اس سے لاہور کے تمام شہری مستفید ہوں گے۔

اپوزیشن جماعتیں منصوبہ شروع کرنے سے قبل کہاں تھیں؟بروقت منصوبے کو روک کر اس سے عوام کا اربوں روپیہ بچایا جاسکتا تھا۔اب اس منصوبے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی اتنی ہی لاگت میں بھی اضافہ ہو گا اس کے لئے فنڈز کسی کی جیب سے نہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیئے جانے والے ٹیکسز سے ادا ہونے ہیں ۔


عوامی منصوبوں کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ایسے منصوبے ہر حکومت تیار نہیں کرتی جس سے براہ راست عوام مستفید ہوں ۔ عدالٹ عظمی نے اورنج ٹرین کو آزمائشی بنیادوں کو دو ہفتے کے لئے چلانے کی اجازت دی ہے اگر ٹرین کے چلنے سے تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا اور ارتعاش پیدا ہوا تو اس سے عوام کا اربوں روپیہ ضائع ہو جائے گا اس کی ذمہ داری ان ماہرین پر ہوگی، جنہوں نے ارتعاش کی شدت سے تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کے امکان کو مد نظر نہ رکھا۔


اورنج لائن میٹروٹرین پاکستان کے عوام کا منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ عام آدمی کو با وقار ، با کفایت او رعالمی معیار کی سفری سہولتیں فراہم کرے گا۔اس منصوبے کو عزم اور نئے جذبے کیساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ جی پی او چوک،مال روڈ پر کام کے آ غاز سے قبل ٹریفک کا بہترین متبادل پلان بنایا جائے اورٹریفک کا متبادل نظام ماہرین سے مشاورت کے بعد تبدیل کیا جائے تاکہ ٹریفک کی بندش سے شہریوں کو کوئی مشکل نہ ہو۔

عدالت عظمی کی ہدایات کی روشنی میں من و عن عملدر آمد بھی کیا جائے ۔مخالفین خیال رکھیں کہ عوامی منصوبوں کو سیاست کی نظر نہ کیا جائے اور عوام کی سہولت کے لئے ایسے منصوبے چلتے رہنے دیئے جانے چاہئیں۔سیاسی مخالفت میں اس حد تک نہ چلے جائیں، جس سے عوام کے پیسوں کا بھی ضیاع ہو اور عوام کے لئے بنائے گئے منصوبے بھی پائیہ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں ۔

مزید :

کالم -