پہلے ’’تولو‘‘ پھر بولو

پہلے ’’تولو‘‘ پھر بولو
پہلے ’’تولو‘‘ پھر بولو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گذشتہ روز قومی اسمبلی میں جب ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری بطور اسپیکر فرائض سر انجام دے رہے تھے تو اُس وقت ’’ اقلیتی ‘‘ ایم این اے رامیش کمار نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کے ’’ پرمٹ ‘‘ بند کرنے کی ایک قرار داد پیش کی جسے حکومتی جماعت سمیت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مسترد کرتے ہوئے واک آوٹ کر دیا ۔ یہ ایک عام خبر ہے ، کیونکہ قرارداد پیش کرنے والا اقلیتی ایم این اے تھا ، وہ ایم این اے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہ قرار داد پیش کر رہا تھا ، اس قسم کے تبصروں اور تنقید نے اُس قرارداد پیش کئے جانے کو ایک مضحکہ خیز واقعہ بنا دیا ہے ، اس قرارداد کو سیاسی جماعت ایم ایم اے کی حمائت حاصل ہوئی لیکن وہ بھی بے سود رہی ، اتنے معزز اور نسل در نسل بننے والے مسلمان ایم این ایز اس قراداد کے خلاف ہیں ، پاکستان کو صاف اور ریاست مدینہ کی طرز پر بنائی جانے والی دھرتی کا خواب دکھانے والے بھی اپنے ہی ایم این اے کی قرارداد کو سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بتا رہے ہیں ،

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے تو ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ پاکستان میں ہمارا رواج ہی بن گیا ہے کہ سستی شہرت کے لئے اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں، رامیش پال کی طرف سے ایسی قرارداد پیش کرنا کچھ معنی نہیں رکھتا کیونکہ اگر شراب پر پابندی لگا دی جائے تو بھی جس نے پینی ہے اُس نے پینی ہے اور جس نے نہیں پینی اُس نے نہیں پینی ،اینکر پرسن نے فواد چوہدری کے منہ سے جب یہ سنا کہ یہ سب کچھ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے تو اینکر نے ’’ کرید ‘‘ کر دوبارہ استفسار کرتے ہوئے کہا کہ رامیش کمار ایسا کر رہے ہیں ؟ تو جواب ملا کہ جی ہاں اور نہیں تو کیا ہے ؟ رامیش کمار پاکستان میں مقیم ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک اقلیتی ایم این اے ہے ، اُس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ،تحریک انصاف کے رامیش کمار نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 37میں ترمیم کا نجی بل پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہوئے کہا کہ ’’ شراب ‘‘ اسلام ،ہندو ، عیسائی اور دوسرے تمام مذاہب میں حرام ہے اس کے اجازت نامے منسوخ کئے جائیں ،

ڈپٹی اسپیکر نے ایوان کی اکثریت کی مخالفت پر رامیش کمار کو بل پیش کرنے سے روک دیا ،ایم ایم اے کے معزز ممبران نے اس پر احتجاج کیا ، رامیش کمارکے مسترد بل پر دوبارہ ووٹنگ کا مطالبہ کیا گیا تو اپوزیشن نے اسے ایجنڈے اور قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ایوان سے ’’ واک آوٹ ‘‘ کر دیا ۔سمجھ سے بالا تر یہ عمل ہے کہ ہم مسلمان معزز ممبران پر تنقید کریں یا ہندو ایم این اے کو داد دیں ؟ میرے خیال میں رامیش کمار کے کہنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ شراب کے پرمٹ اقلیتی افراد کو دیئے جانے کی آڑ میں اس مکروہ دھندے کو ختم کیا جائے ، کیونکہ کوئی مذہب بھی شراب پینے کو جائز قرار نہیں دیتا تو کسی بھی مذہب کے لئے شراب کے پرمٹ اشو کرنا کہاں کی عقلمندی ہو گی ، اُن کے کہنے کا یقیناًمطلب یہی تھا کہ اقلیت کو پرمٹ اشو کرکے دوسرے مذاہب کی توہین نہ کی جائے ،

اسلام میں شراب پینا ، بیچنا اور شراب کے حوالے سے کوئی بھی جزو قطعاًحرام ہے ، پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اب دھرتی کو حرام کاموں اور اشیاء سے پاک رکھنا یہاں کے تمام باسیوں کی ذمہ داری ہے اور آج پاکستان کا قانون بنانے والی فیکٹری میں شراب پر پابندی کے خلاف واک آوٹ کیا جانا اور حکومتی نمائندوں کا اپنی جماعت کے ایم این اے کے خلاف سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے قرارداد پیش کئے جانے جیسے الفاظ استعمال کرنا لمحہ فکریہ ہے ۔ایک ہندو پاکستان کی دھرتی کو پاک کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کے سپوت ایم این اے اس بات کے خلاف ہیں ، کچھ عرصہ قبل سابق ایم این اے جمشید دستی نے میڈیا کے ساتھ مل کر ’’ شراب ‘‘ کی خالی بوتلوں کے جو انبار برامد کئے تھے وہ ایم این اے ہاسٹل اور قومی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے عہدیداران کے لاؤجز سے ملے تھے ، جمشید دستی کے ساتھ اُس وقت کی حکومت نے کیا سلوک کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،

آج بھی جمشید دستی کی پولیس وین سے چیخوں کی آواز کی بازگشت دارلحکومت کی سڑکوں پر سنائی دیتی ہے ، اب ایک بار پھر سے شراب کے خلاف ایک اقلیتی ایم این اے میدان میں اُترا ہے ، جس نے پاکستان کو اس حرام شے سے پا ک کرنے کی بات کی ہے ، دیکھتے ہیں کہ تبدیلی کے اس دور میں شراب پر پابندی کی بات سنی جاتی ہے یا کہ رامیش کمار کی چیختی آواز ہمیں جمشید دستی کی یاد دلاتی ہے ۔ویسے میں فواد چوہدری کے اس بیان پر بات کرنا چاہتا ہون کہ جس نے شراب پینی ہے اس نے پینی ہے اور جس نے نہیں پینی اس نے نہیں پینی ، پر کہنا چاہتا ہوں کہ اس طرح تو جس نے کرپشن کرنی ہے وہ کرے جس نے نہیں کرنی وہ نہ کرے ، جس نے لوٹنا ہے وہ لوٹے جس نے نہیں لوٹنا وہ نہ لوٹے ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پھر پاکستان میں قانون کیوں بنائے گئے ہیں ؟

وزیر اعظم پاکستان عمران خان ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتے ہیں اور آپ حجاب کو ایک واہیات چیز کہہ دیتے ہیں ، عمران خان قومی اسمبلی کے فلور پر ہالینڈ میں بنائے جانے والے گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں جبکہ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان میں احتجاج کیوں ؟ عمران خان مولانا طارق جمیل کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں اور یہ موصوف کہتے ہیں کہ مولانا ہمیں پتھر کے زمانے میں لیجانا چاہتے ہیں ، تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کروڑوں نوجوانوں کی جماعت ہے اس پلیٹ فارم سے کوئی بھی بیان دیتے ہوئے پارٹی کی اہمیت کو مد نظر رکھا کریں ، اگر ایک ہندو ایم این اے نے تمام مذاہب میں شراب حرام قرار دیئے جانے کی وجہ سے شراب کے پرمٹ بند کرنے کی اپیل کی ہے تو آپ اُس ایم این اے کا تمسخر اُڑا رہے ہیں ؟پیغام میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ رامیش کمار کی بات کی تائید نہیں کر سکتے تو کم از کم اُس کا تمسخر بھی تونہ اُڑائیں ، سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کو تحریک انصاف کے نوجوانوں کی طرف سے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اگر ہماری آواز پر عاطف میاں کو گھر بھیجا جا سکتا ہے تو کسی بھی وزیر یا مشیر کو ایسے بیانات کہ جن سے تحریک انصاف یا وزیر اعظم پاکستان کی شخصیت یا ساکھ پر انگلی اُٹھے وزارت سے فارغ کیا جا سکتا ہے ۔

مزید :

رائے -کالم -