’آپریشن کروا کر میرے جیسی غلطی نہ کرنا‘ 23 سال قبل جنس تبدیل کروا کر مرد سے خاتون بننے والی نے نوجوانوں کو خبردار کردیا
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) مغربی دنیا میں مردوخواتین کے جنس تبدیل کرانے کی شرح اس قدر ہولناک ہو چکی ہے کہ اس وقت صرف برطانیہ میں 2لاکھ سے 5لاکھ کے درمیان لوگ اپنی جنس تبدیل کروا چکے ہیں اور جولاکھوں نوجوان کلینکس سے جنس تبدیلی کی سرجری کا وقت لے کر انتظار کر رہے ہیں وہ الگ۔57سالہ لی اینی ملز نامی خاتون ان ابتدائی برطانوی لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے سرجری کے ذریعے جنس تبدیل کروائی۔ اب لی اینی نے مرد سے عورت بننے کے 23سال بعد نوجوانوں کو اس عمل سے خبردار کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق لی اینی کا کہنا ہے کہ ”میں اس بات کا ثبوت ہوں کہ کوئی بھی مرد سرجری کے ذریعے کبھی مکمل عورت نہیں بن سکتا۔ جنس تبدیل کروانے کے بعد جو تنہائی اور مایوسی اس کا مقدر بنتی ہے میں اسے بھگت رہی ہوں اور میں نوجوانوں کو خبردار کرتی ہوں کہ وہ میرے جیسی غلطی ہرگز نہ کریں اور جنس تبدیل کروانے سے پہلے سو بار سوچیں۔ پھر بھی اگر وہ جنس تبدیل کروانا ہی چاہیں تو مکمل سرجری نہ کروائیں اور واپسی کا آپشن اپنے ہاتھ میں رکھیں۔“
لی اینی کا کہنا تھا کہ ”1978ءمیں میری 17ویں سالگرہ کا دن تھا جب میں نے پورا دن اپنے آپ کو مخالف جنس کی حامل سمجھا۔ اس دن کو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ رات کو میں نے اپنے والدین سے صاف کہہ دیا تھا کہ اب میں مزید لڑکا بن کر نہیں رہ سکتی۔ میں لڑکی بننا چاہتی ہوں۔1980ءمیں گھر چھوڑ کر اپنے ایک دوست کے فلیٹ میں منتقل ہو گئی اور خاتون کی سی زندگی گزارنے لگی۔ میں خواتین کا لباس پہن کر سڑکوں پر گھومتی اور ہیل والے جوتے پہنتی تھی۔1995ءمیں میں نے جنس تبدیلی کے لیے پہلی سرجری کروائی اور پھر پے درپے کئی آپریشنز کے بعد میں جسمانی اعتبار سے عورت بن گئی۔جنس تبدیل کروانے کے ابتدائی سالوں میں میں بہت خوش تھی لیکن پھر جب مجھے تنہائی اور مایوسی نے آ گھیراتو میری زندگی ایسے تاریک راستے پر چل نکلی جس سے میں آج تک باہر نہیں آ پائی ہوں۔ میرے والدین نے شرمندگی کے باعث مجھ سے ناتا توڑ لیا۔
میں2000ءاپنے والد کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کر سکی کیونکہ میرے والدین نے بہت کم لوگوں کو بتایا تھا کہ ان کا بیٹا ’لی‘ اب لی اینی بن چکا ہے۔ باپ کی موت کے بعد والدہ کے ساتھ میرا رابطہ ہونے لگا لیکن انہوں نے بھی ہمیشہ لوگوں کے سامنے مجھ سے ملنے سے گریز کیا۔ حتیٰ کہ میں فون کرتی اور اگر اس وقت ان کے پاس کوئی اور لوگ ہوتے تو وہ میرا فون نہیں سنتی تھیں۔2004ءمیں میری والدہ بھی انتقال کر گئیں۔ تب سے میں برمنگھم میں واقع اپنے ماں باپ کے گھر میں رہائش پذیر ہوں۔“
لی اینی نے بتایا کہ” زندگی میں کبھی کسی مرد کے ساتھ میرا تعلق چند دن سے زیادہ نہیں چل سکا۔ اکثر تو پہلی ڈیٹ پر ہی، جب انہیں میرے بارے میں حقیقت معلوم ہوتی، مجھے سب کے سامنے انتہائی برا بھلا کہتے ہوئے اٹھ کر چلے جاتے۔ ایک شخص سے میں ہوٹل میں پہلی بار ملی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میںجنس تبدیل کروا کر عورت بنی ہوں تو وہ مجھ پر برس پڑا۔ اس نے کہا کہ تم پاگل ہو۔ پہلے کیوں نہیں بتایا۔ وہ مجھ پر چیخ رہا تھا اور اردگرد بیٹھے لوگ ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ مجھے وہیں بیٹھے چھوڑ کر چلا گیا۔ ایسا توہین آمیز سلوک زندگی بھر میں نے برداشت کیا ہے۔ اب میں اچھی شکل و صورت ہونے کے باوجود گھر میں رہتی ہوں اور کبھی مہینے میں ایک آدھ بار ہی ضروری سامان خریدنے باہر جاتی ہوں۔ میں نے زندگی بھر جس ہتک آمیز سلوک، تنہائی اور اذیت کا سامنا کیا ہے، اس کے بعد میں نوجوانوں کو ایک بار پھر یہ نصیحت کرتی ہوں کہ وہ جنس تبدیل کروانے کی غلطی کبھی نہ کریں۔“