حکومتی ناکامیاں
عمران خان کے حکومت میں آنے سے پہلے کے نعروں میں 50 لاکھ گھر،ایک کروڑ نوکریاں، 90 دن میں معیشت، بیوروکریسی اور پولیس کے محکمے کو ٹھیک کرنا شامل تھا۔ 16 مہینے گزر جانے کے باوجود معیشت ابھی ٹریک پر نہیں آسکی۔ان 16مہینوں میں آئی۔ایم۔ایف کے پاس جانے کے باوجود مہنگائی اور ڈالر کنٹرول میں نہیں آسکے۔دوسری طرف روزمرہ کی چیزوں کا لوگوں کی پہنچ سے دور ہونا اور صنعتی کارخانوں کا بند ہونا شامل ہے،جس کی وجہ سے غربت کی شرح میں اضافہ ہواہے۔ اس کے علاوہ آئے روز مختلف محکموں میں تقررو تبادلے بھی حکومتی رٹ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
پنجاب پاکستان کی شہ رگ ہے، کیونکہ پنجاب سے ملک کو سب سے زیادہ ریوینواکٹھا ہوتا ہے۔ یہاں کے وزیراعلیٰ کی کارکردگی پر ہمیشہ اپوزیشن کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے، تاہم ہر مرتبہ وزیراعظم عمران خان اور حکومتی نمائندوں کی طرف سے یہ وضاحت آتی ہے کہ بیوروکریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی،جس کے باعث حکومت پنجاب پرفارم نہیں کر پا رہی۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اب تک 3 چیف سیکرٹری اور ساتھ ہر ضلع کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنربھی بدلے ہیں، 4 آئی۔جی پنجاب،ایک مشیر پولیس اصلاحات ناصر خان درانی بھی گئے، جن کی شہرت تھی کہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں پولیس کے محکمے کی کارکردگی کو بہتر بنایا،وہاں پولیس کا محکمہ دوسرے صوبوں کی نسبت آزاد تھا۔ ناصر درانی بھی پنجاب حکومت کے ساتھ نہ چل سکے، اپنا استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔اب پھر پنجاب کا آئی۔جی تبدیل کردیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ پورے پنجاب کے آر۔پی۔او، ڈی۔پی۔او بھی تبدیل کردیئے ہیں۔کیا یہ وہی 90 فیصد بیوروکریٹس نہیں ہیں،جنہوں نے میاں شہباز شریف کے ساتھ کام کیا ہوا ہے؟ کیا اب یہی افسر تبدیلی لائیں گے؟ جن افسروں کے بارے میں عمران خان کہا کرتے تھے کہ اقتدار میں آکر اِن کو جیل میں ڈالو ں گا۔کیا حکومت اب ہونے والے تبادلوں سے محکموں میں تبدیلی لاسکے گی ِ؟
اس میں کوئی شک نہیں تبادلے وزیراعلیٰ کا اختیار ہیں، جس کو چاہیں رکھیں، جس کو چاہیں تبدیل کریں۔ نئی ہونے والی تقرریاں اور تبادلے عثمان بزدار کی حکومت کو کتنا مضبوط بنائیں گے، اس بات کا پتہ آنے والے وقت سے ہی چلے گا۔حکومت کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی میں کچھ ایسے افسر موجود ہیں جو ہماری حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور حکومت کے سامنے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ بیوروکریسی کے ایسے لوگوں کو ٹھیک کرنے کے لئے تقرریاں اور تبادلے کئے جارہے ہیں۔انتظامی معاملات کو صرف اسی صورت میں بہتر کیا جاسکتا ہے، جب افسروں کی تقرریاں میرٹ پر ہوں۔ جب سیاسی سفارشات نہ ہوں اور سب کام میرٹ پر ہو تو خودبخود حالات حکومت کے کنٹرول میں آجائیں گے۔ جس افسر کے خلاف کوئی شکایت ہو، فوری ایکشن لیا جائے، اس سے افسروں میں بھی خوف ہو گا۔مَیں ایسے افسروں کو جانتا ہوں، جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے، لیکن انہوں نے اپنی کارکردگی سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ایس ایس پی ایاز سلیم جب ڈی۔پی۔او خانیوال تھے، اُنہوں نے وہاں پرفارم کر کے دکھایا۔ اُن پر اُس وقت کی حکومت کے ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔اے صاحبان کی طرف سے بہت بار پریشر آیا،لیکن انہوں نے میرٹ کو ترجیح دی اور خانیوال سے جرائم پیشہ لوگوں کا خاتمہ کیا۔
ایک دوسرے ایس ایس پی ملک اویس احمد،جو ڈی۔پی۔او مظفرگڑھ تھے، اِن کی کارکردگی بھی بہترین رہی ہے۔
مظفر گڑھ ضلع پنجاب میں جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، لیکن اُن کی دلیرانہ کارروائیوں نے مظفرگڑھ سے جرائم پیشہ لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ڈی۔پی۔او صاحب نہ تو کسی سیاسی بندے کی ناجائز بات مانتے تھے، نہ ہی کسی غلط بندے کو چھوڑتے تھے، اِن کو تبدیل کرنے کے لئے حکومتی نمائندؤں نے بہت کوشش کی،لیکن ڈی۔پی۔او صاحب اپنی کارکردگی کی وجہ سے تبدیل نہیں ہو سکے،بلکہ ڈی۔پی۔او، کو نہ تبدیل کرنے کی وجہ سے حکومت کے لوگ اِن کو چھوڑ گئے۔ کیا اِن جیسے افسروں سے فائدہ نہ اٹھانا حکومت کی نااہلی نہیں ہے؟ میرا ان افسروں سے کوئی ذاتی تعلق نہیں، لیکن ان کی کارکردگی کے بارے میں سب جانتے ہیں۔آئی۔جی پنجاب شعیب دستگیر بہت قابل افسر ہیں،
افسر تو سب ہی قابل ہوتے ہیں، لیکن طریقہ اپنا اپنا ہوتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے آئی۔ جی شعیب دستگیر کی تعیناتی پر حکومت کب تک اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے؟ اگر حکومت نئی تعیناتیوں سے بھی فائدہ حاصل نہ کر سکی تو پھر یہ گورننس کا مسئلہ ہے۔ اِن تبادلوں کے بعد بھی اگر لگتا ہے کہ بیوروکریسی اِن کی حکومت کو چلنے نہیں دے رہی تو پھر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے اندر ہی اہلیت نہیں کہ وہ صحیح بندے کا انتخاب کرسکیں۔پھر بجائے بیوروکریسی کو تبدیل کرنے کے، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم عمران خان صاحب کو بجائے ضد کے سوچنا ہو گا کہ اگر پنجاب اِن کے ہاتھ سے نکل گیا تو تحریک انصاف وفاق میں گورنمنٹ قائم نہیں رکھ سکے گی۔