کالے اور سفید کوٹ کا تکبر جیت گیا‘ غریب مریض زندگی کے بازی ہار گئے
سوچ رہا تھا کہ لکھنے سے پہلے تحریر کو کیا عنوان دوں کیونکہ پی آئی سی میں جو دلخراش سانحہ رونما ہوا ہے اس کو بہت سے نام دئیے جا سکتے ہیں لیکن میں یہاں پر ابتدا ء میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم بطور مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بہترین مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ کمی بیشی معاف یہاں پر دوسری وہ بات کہنا چاہوں گا کہ جس کے بارے میں ہمارے جید علمائے کرام کا کہنا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر معافی مانگ لینے سے تمہاری عزت کم پڑتی ہو تو قیامت کے دن اپنی وہ عزت مجھ سے لے لینا اگر سفید کوٹ والے یا پھر کالے کوٹ والے ایک دوسرے سے معافی مانگ لیتے تو اس سے ان کی شان میں کونسا فرق پڑ جانا تھا اور اگر کوئی فرق پڑ بھی جاتا تو جیسے تمام جہانوں کے آقا ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ عزت مجھ سے لے لینا کیا ان دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو معاف نہ کرکے اپنے لئے اتنی بڑی آفر کو ٹھکرا کر اپنے اپنے منہ پر سیاہ رنگ نہیں لگایا ہے افسوس کی بات ہے کہ دونوں فریقین ہی اپنی اپنی طاقت کے نشے میں اس قدر چور تھے کہ دونوں کو ہی نہ تو اپنی تعلیم اور نہ ہی اپنے اپنے مقدس شعبوں کا خیال رہا۔
پھرکمی بیشی معاف یہاں پر پھر اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے اس عظیم فرمان کی طرف لیجانا چاہوں گا کہ اگر تکبر کے بارے میں انسان کو اللہ کی نا پسندیدگی کے بارے میں زرا سا بھی علم ہو جائے تو وہ زمین پر چلنے والے کیڑوں سے بھی خود کو کمزور سمجھے اور ان کے ساتھ بھی نرمی اور پیار سے پیش آئے اور ہمارے مذہب میں تو یہ بھی حکم ہے کہ تم بیمار کی عیادت کے لئے جاؤ اور اسے کہو کہ میرے لئے بھی اللہ سے دعا کرو مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم تو اپنے اپنے تکبر میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں تواس بات کا بھی احساس نہیں رہا کہ ہم نے تو ان بیماروں کی عیادت کی بجائے ان کے آکسجین ماسک اتار دئیے ان کو علاج معالجہ کی سہولت سے محروم کرکے ان کو موت کی گہری نیند سلا دیا جن ہسپتالوں کے باہر سے گذرتے ہوئے شور کرتے ہوئے بھی منع فرمایا گیا ہے ہم نے تو وہاں اس قدر توڑ پھوڑ کردی ہے کہ جس کی کوئی مثال ہی نہیں ملتی ہے اور ہم نے تو وہ کام کردیا ہے جو کہ شائد ہمارے دشمنوں نے بھی نہ کیا ہو اس طرح کی افسوسناک خبر تو مقبوضہ کشمیر کے ہسپتالوں سے بھی شائد سامنے نہ آئی ہو کہ جہاں پر بھارتی مظالم افواج نے اپنا ظالمانہ اور غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے کیا ہم بدلہ لینے میں اپنے دشمن کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں یہ وہ چند اہم سوالات ہیں جو کہ آجکل ہر پاکستانی کے دل اور دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔
اب یہاں پر زکر ہو جائے پنجاب کے سب سے بڑے شریف انسان وزیر اعلی پنجاب یعنی عثمان بزدار کا وزیر اعظم ان کے بارے میں اور ان کی شرافت کے بارے میں ہر وقت تذکرہ کرتے رہتے ہیں کہ ان سے زیادہ شریف انسان شائد ہی کوئی ہو ہم وزیراعظم کی اس بات کو مان لیتے ہیں کہ لیکن ان کی اس حد سے بھی زیادہ شرافت کا پنجاب کے کروڑوں عوام کو کیا فائدہ ایک ایسا صوبہ جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسی ایک صوبے کی سیاست اور گڈ گورنینس کے بل بوتے پر مسلم لیگ (ن) تین مرتبہ وزارت عظمی انجوائے کر چکی ہے اور اسی ایک صوبے بالخصوص لاہور میں بھرپور ترقیاتی کاموں کا جال بچھانے کی وجہ سے یہاں کے سابق مسلم لیگی وزیر اعلی میاں شہباز شریف کو تخت لاہور کے سر براہ کا
پیپلز پارٹی نے لقب بھی دیا مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مان لیا جائے کہ شہباز شریف نے صرف لاہور کو ہی فوکس کئے رکھا تواس میں انہوں نے کونسا غلط کام کیا تھا یہ دل کا ہسپتال جس کو آج دو مختلف کلر کے کوٹ پہننے والوں نے اپنی اناء کی تسکین کی خاطر ایک اکھاڑے سے بھی بد تر حالت میں تبدیل کردیا اس کو بھی تو مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ہی بنایا تھا آپ سے تواس ہسپتال کی حفاظت ہی نہ ہو سکی۔
یہاں پر انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ جب دونوں فر یقین کے مابین ایک عرصے سے ”کولڈ وار“ یعنی وکلاء روز اپنے بار روم میں ڈاکٹرز کے خلاف پر امن احتجاج ریکارڈ کرواتے تھے وہ اپنے ملزمان کی گرفتاری کے لئے آئی جی آفس کے باہر بھی گئے جبکہ اسی دوران ڈاکٹرز بھی روزانہ کی بنیادوں پر پی آئی سی کے آؤٹ ڈور میں ان وکیلوں کے خلاف تقاریریں کرکے اپنی بھڑاس نکالتے تھے تواس وقت حکومت کو کیوں نہ خیال آیا کہ وہ اس صورت حال کو بھانپنتے ہوئے ان کی برابری کی بنیادوں پر صلح صفائی کروادیتے تاکہ اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا کہ جس کی وجہ سے ہماری پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی ہے اور کیا واقعہ کے فوری بعد وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا بطور صوبے کے سربراہ یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ اپنے آقا وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے لئے اسلام آباد کی بجائے پی آئی سی جاتے اور وہاں کی صورت حال کا بغور جائزہ لیتے اور وہاں کے مریضوں اور ان کے لواحیقن کے دکھ درد کو بانٹنے کے لئے آگے بڑھتے مگر شائد انہوں نے ایسا کرنا ضروری نہ سمجھا یا پھر شائد ان کے مشیروں نے ان کو یہ کہہ کر معطمین کردیا کہ آپکی اپنے باس وزیراعظم سے ملاقات ہو گئی ہے
ویسے بھی آپ صوبے کا جتنا مرضی اپنی شرافت سے بیڑہ غرق ہو لینے دیں انہوں نے کونسا آپکو آپکے عہدے سے ہٹا دینا ہے مگر یہاں تو ضرورت اس امر کی تھی کہ اس ایشو پر غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد‘ صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ اور صوبے کے سر براہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار خود ہی مستعفی ہو جاتے اور مجھے اس بات کا پورا یقین ہے
کہ اگر خدانخواستہ اس طرح کا دلخراش واقعہ کسی سابقہ حکومت میں پیش آیا ہوتا تو آج کے وزیراعظم عمران خان اور ان کے جوتشی وزیر شیخ رشید احمد اور اسی یاسمین راشد نے آسمان سے پر اٹھایا ہونا تھا اور ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیکر حکمرانوں سے مستعفی ہونے کے مطالبے کرنے تھے لیکن چونکہ اب یہ لوگ حاکم ہیں اور اب یہ لوگ اپنے لئے ایسی سزا تجویز کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور اپنی کہی ہوئی باتوں سے یو ٹرن لے لینا یعنی سادہ لفظوں میں مکر جانا بھی ایک اعزاز سمجھتے ہوں تو ایسے حکمرانوں سے کسی غیرت مند اور جرات مند اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی تاہم یہ بات روز روش کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ یہ واقعہ سراسر پنجاب حکومت کی غفلت اور لا پرواہی کا نتیجہ ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ کے لئے ایسے واقعات کی روک تھام یقینی بنائی جائے وگرنہ اس طرح کے ماحول سے ملک میں خانہ جنگی کے اثرات پیدا ہو سکتے ہیں پنجاب کے شریف انسان یعنی وزیر اعلی پنجاب کو خواب غفلت سے جاگنا ہو گا۔