رانی کی گڑیا
روما کو گڑیاں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک گڑیا گھر بنا رکھا تھا۔ جس میں ہر قسم کی گڑیاں تھیں،کوئی چھوٹی تو کوئی بڑی۔ کوئی گانا سنانے والی تو کوئی ناچنے والی۔ کوئی انگریزی پڑھنے والی تو کوئی نظمیں سنانے والی، کوئی کالی تو کوئی گوری تو کوئی لمبے بالوں والی۔ روما اپنی گڑیوں سے بہت پیار کرتی تھی۔ گھنٹوں ان سے بیٹھ کر باتیں کرتی رہتی تھی۔ کبھی ان کے بال سنوارتی تو کبھی ان کو رنگ برنگے لباس پہناتی۔ وہ اپنی گڑیوں کی بہت حفاظت کرتی تھی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں روما کی دادی اماں نے روما کو گاؤں کی سیر کو بلوایا۔ ابو مصروف تھے اور امی کو گھر کے کاموں سے فرصت نہ تھی۔ روما کو دادی اماں آ کر لے گئیں۔روما گاؤں جاتے ہوئے صرف دو گڑیاں ہی ساتھ لے جا سکی۔ کیونکہ تمام گڑیاں ساتھ نہیں جا سکتی تھیں۔ روما گڑیوں سے بچھڑتے ہوئے بہت اداس تھی۔ گاؤں جا کر روما کا کچھ دن دل نہ لگا پھر اس کو ایک دوست رانی مل گئی۔ رانی اسی گاؤں کی رہنے والی تھی۔ اور وہیں پڑھتی بھی تھی۔ رانی کو بھی چھٹیاں تھیں۔ دونوں مل کر خوب کھیلتیں۔ شرارتیں کرتیں۔ رانی بہت اچھی بچی تھی۔
روما نے رانی کو اپنی گڑیوں کے بارے میں بتایا۔ تو رانی بولی روما! میرے پاس تو صرف ایک گڑیا ہے۔ جو مجھے کسی نے تحفہ دی تھی۔ میں اسے بہت سنبھال کر رکھتی ہوں۔ روما نے سوچا کہ کوئی عام سی پلاسٹک کی گڑیا ہو گی ٹانگ ٹوٹی ہوئی اورآنکھ پھوٹی ہوئی۔ اگلے دن ہی روما رانی کے ساتھ اس کی گڑیا دیکھنے کو چل دی۔ رانی نے بڑے صندوق میں سے جب اپنی گڑیا نکال کر روما کو دکھائی تو روما حیران رہ گئی۔ بڑی سی گڑیا سنہرے بال، نیلی آنکھیں۔ کبھی بند کر تی کبھی کھولتی کبھی ہنستی کبھی روتی۔ روما سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ رانی کے پاس اتنی خوبصورت اور قیمتی گڑیا ہو گی۔ روما کے پاس اس جیسی کوئی گڑیا نہ تھی۔ گھر واپس آ کر بھی روما رانی کی گڑیا کے خیالوں میں کھوئی رہی۔ وہ کسی نہ کسی طرح رانی سے وہ گڑیا لینا چاہتی تھی۔ اگر وہ گڑیا میرے گڑیا گھر میں پہنچ جائے تو کیا ہی بات ہے۔ میرا گڑیا گھر سج جائے گا۔ روما رات ٹھیک طرح سو بھی نہ سکی۔ اگلے دن باتوں ہی باتوں میں روما نے رانی سے کہا کہ رانی اگر تم میری سچی دوست ہو تو اپنی گڑیا مجھے تحفے میں دے دو۔ رانی بولی روما میں بے شک تمہیں اپنی گڑیا دے دیتی مگر وہ گڑیا خود مجھے تحفے میں ملی ہے۔ میں تمہیں وہ کیسے دے سکتی ہوں، روما چپ ہو گئی۔
امی جان کا خط آیا تھا چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔ روما واپس آ جاؤ۔ دادی اماں نے روما کو چھوڑنے شہر جانا تھا۔ اگلی صبح ان کی روانگی تھی۔ شام کو روما رانی کے گھر گئی اور رانی سے بولی رانی اپنی گڑیا آج کی رات مجھے دے دو۔ صبح میں تمہیں گڑیا واپس لوٹا دوں گی۔ آج میں اس سے کھیلنا چاہتی ہوں۔ روما نے رانی سے اپنے جانے کی بات نہ کی۔ رانی نے روما کو اپنی گڑیا دے دی اور روما صبح گڑیا لوٹانے کا وعدہ کر کے خوشی خوشی گڑیا لے کر گھر آ گئی اور اپنے بیگ میں چھپا لی۔ صبح منہ اندھیرے ہی دادی اماں اور روما شہر جانے والی بس پر سوار ہو کر گاؤں سے چل پڑیں۔ روما بہت خوش تھی کہ اس نے چالاکی سے رانی سے گڑیا لے لی ہے۔ سارا سفر اسی خوشی میں کٹ گیا۔ گھر آ کر روما جلدی سے اپنے گڑیا گھر میں گئی اور تمام گڑیوں کو پیارکیا اور نئی گڑیا کو بھی سجا کر رکھ دیا۔ امی نے گڑیا کو دیکھا تو روما سے پوچھا۔ روما بیٹی یہ نئی گڑیا کہاں سے آئی ہے؟ روما جھٹ سے بولی گاؤں میں میری سہیلی نے تحفے میں مجھے یہ گڑیا دی ہے۔ ادھر اگلی صبح جب رانی روما کی دادی کے گھر پہنچی تو اسے پتا چلا کہ روما تو پہلے ہی اپنی دادی کے ساتھ شہر جا چکی ہے۔ تو اسے بہت افسوس ہوا۔ اسے روما سے اس دھوکے کی امید نہ تھی۔ وہ اپنی گڑیا چھن جانے کے خیال سے بہت پریشان ہوئی اور بہت روئی۔
اگلے روز جب روما جا گی اور گڑیا گھر میں گئی۔ گڑیوں کے ارد گرد پھرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس کی ایرانی گڑیا کے لمبے لمبے بال کاٹ کر کسی نے نیچے فرش پر پھینک دیے ہیں۔ یہ کیا؟ اس کی تو ایک آنکھ بھی غائب ہے۔ روما کو بہت افسوس ہوا کہ یہ کس کی حرکت ہے۔ امی نے کہا روما بیٹا۔ گھر میں تمہارے سوا کوئی بچہ نہیں۔ تمہارے ابو یا میں تو تمہاری گڑیا خراب نہیں کر سکتے۔ روما کو صبر کرنا پڑا۔ لیکن جب اگلی صبح دوبارہ دیکھا کہ اس کی ٹھمک ٹھمک کر چلنے والی جاپانی گڑیا کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے، تو روما سچ مچ پریشان ہو گئی۔ اس کی پریشانی بڑھتی ہی گئی۔ روزانہ ایک نہ ایک گڑیا کا کباڑہ ہو جاتا۔ گڑیا گھر میں سجی خوبصورت گڑیا کوئی آنکھ سے کانی تو کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی،کوئی گنجی تو کسی کا ناک کٹا ہوا۔ روما کا صدمے سے برا حال تھا۔ ابو جان تک جب یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ وہ کافی دیر تک سوچتے رہے کہ آخر کیا ماجرا ہے؟ ایک دن جب رات کو روما سو گئی تو ابو اور امی چپکے سے آ کر گڑیا گھر کی کھڑکی کے پاس چھپ کر کھڑ ے ہو گئے تاکہ گڑیوں کا حشر نشر کرنے والوں کو دیکھا جا سکے۔
گڑیا گھر میں ایک چھوٹا سا بلب روشن تھا۔ اور وہاں مکمل خاموشی تھی۔ کافی دیر تک امی ابو خاموشی سے کھڑے رہے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک کونے میں پڑی ہوئی گڑیا نے ایک دم سے حرکت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بدصورت شکل اختیار کر گئی۔ پھر وہ روما کی ایک خوبصورت گڑیا کی طرف بڑھی۔ بے دردی سے اس کے بال نوچے اور آنکھیں نوچیں اور اس کا خوبصورت لباس پھاڑ کر دو رپھینکا۔ اور دوبارہ جا کر خوبصورت گڑیا کا روپ دھار لیا۔ امی ابو خوف سے سہمے کھڑے تھے۔ وہ جلدی سے اپنے کمرے میں پہنچے اور اس واقعے کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ یہ گڑیا جس نے بدصورت شکل اختیار کی تھی روما کے پاس آخر آئی کہاں سے؟ روما کے ابو نے روما کی امی سے سوال کرتے ہوئے کہا۔ یہ گڑیا روما کو گاؤں کی کسی سہیلی نے دی تھی۔ روما کی امی نے جواب دیا۔ اگلی صبح روما کے ابو نے روما کو اپنے کمرے میں بلوایا۔ روما اپنی گڑیا کا حشر دیکھ کر روتی ہوئی ابو کے پاس آئی۔ابو بولے روما بیٹا میرے ساتھ گڑیا گھر میں چلو۔ وہاں جا کر ابو رانی کی گڑیا کے پاس کھڑے ہو گئے اور روما سے پوچھا یہ گڑیا تمہیں گاؤں کی کس سہیلی نے دی تھی؟ روما نے کہا رانی نے دی تھی۔ ابو بولے اگر تم بہادر بچی ہو اور ڈرتی نہیں ہو تو میں تمہیں ایک بات بتاؤں روما نے کہا جی ابو بتائیے۔
تو سنو تمہاری تمام گڑیوں کی قاتل یہ گڑیا ہے۔ آدھی رات کو اپنی شکل بدل کر تمہاری گڑیوں کو یہی توڑتی پھوڑتی ہے۔ اور پھر دوبارہ سے خوبصورت گڑیا بن جاتی ہے۔ تمہاری دوست نے شاید اپنی اتنی پیاری گڑیا تمہیں دے کر اپنی جان چھڑوا لی تھی۔ روما ابو کی بات سن کر حیران پریشان رہ گئی۔ اسے یاد آیا کہ کیسے دھوکے سے اس نے رانی سے یہ گڑیا حاصل کی تھی۔ جبکہ رانی کے پاس ایک ہی یہی گڑیا تھی۔ اب تو روما کے گڑیا گھر میں گنی چنی گڑیاں رہ گئیں تھیں۔
ابو جان! یہ گڑیا مجھے تحفے میں نہیں ملی۔ بلکہ میں نے رانی سے دھوکے سے حاصل کی تھی۔ روما نے گھبرا کر ابو کو ساری بات کہہ سنائی۔ ابو بھی روما کی حرکت سے سخت ناخوش ہوئے۔ چونکہ دادی اماں تو واپس گاؤ ں جا چکی تھیں۔ آج چھٹی کا دن تھا، ابو نے اسے ضائع نہ کیا،ابو نے روما امی اور رانی کی گڑیا کو ساتھ لیا اور گاؤں کی طرف چل دیے۔ گاؤں پہنچتے ہی وہ پہلے رانی کے گھر گئے۔ رانی روما کو دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ ابو بولے۔ رانی بیٹی۔ روما کو معاف کر دو۔ اسے اپنے کیے کی سزا مل چکی ہے۔ تمہاری گڑیا نے روما کا سجا ہوا گڑیا گھر ویران کر دیا ہے،ہم تمہاری گڑیا لوٹانے آئے ہیں اور روما تم سے معافی مانگنے آئی ہے۔ رانی نے روما کو معاف کر دیا۔ اور اپنی گڑیا کو پیار کرنے لگی۔ ابو جان کو تجسس تھا کہ ایسی عجیب و غریب گڑیا رانی کے پاس کہاں سے آئی۔ انہوں نے رانی سے پوچھا تو رانی نے جواب دیا۔
ایک دن میں گاؤں کے پہاڑ پر لکڑیاں لینے گئی۔ جب میں واپس لوٹنے لگی تو میں نے دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے کسی کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی۔ میں فوراً پاس گئی تو دیکھا کہ ایک خوبصورت تتلی کانٹوں کی جھاڑی میں پھنسی ہوئی ہے اور ایک کانٹا اس کے خوبصورت پر کے آر پار گزر کر اسے اڑنے نہیں دے رہا۔ میں نے بڑی نرمی سے کانٹے ہٹائے، ننھی تتلی کو کانٹوں سے چھٹکارا دلایا۔ جنگلی درخت سے شہد اتار کر اس کے زخم پر لگایا۔ جب میں نے اسے پھول پر بٹھا کر گھر چلنے کا ارادہ کیا تو پیچھے سے کسی نے مجھے پکارا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت پری کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا تم کون ہو؟ پری بولی۔ میں ہی وہ تتلی ہوں جسے تم نے کانٹوں سے نکالا اور اس کے زخموں پر شہد لگایا۔ پیاری گڑیا تم بہت ہمدرد اور اچھی بچی ہو۔ میں تمہیں یہ گڑیا تحفے میں دیتی ہوں۔
انکل اس پری نے یہ گڑیا مجھے تحفے میں دی تھی۔ رانی نے گڑیا کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ روما کے ابو سارا قصہ سمجھ گئے۔ انہوں نے رانی کو شہر آنے کی اور شہر کی سیر کروانے کی دعوت دی۔ روما نے رانی سے اپنے کیے کی معافی مانگی۔ رانی نے روما کی غلطی معاف کر دی۔ اور روما کو گلے لگا لیا۔
جب روما اور اس کے گھر والے واپس شہر آنے لگے تو رانی نے کہا پیاری روما۔ اب میں اپنی خوشی سے یہ گڑیا تمہیں تحفے میں دینا چاہتی ہوں۔ نہیں نہیں نہیں … رانی اسے اپنے پاس رکھو۔ ابو اور روما جلدی سے بولے۔ اس سے پہلے کہ رانی کی یہ گڑیا دوبارہ سے بدصورت گڑیا بنتی ابو اور روما نے شکریہ ادا کرتے ہوئے رانی سے اجازت چاہی۔ابھی گھر جا کر روما نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اور زخمی گڑیوں کی مرہم پٹی بھی کرنی تھی۔