صاف ستھرا ماحول مگر کیسے؟
وزیر اعظم عمران خان نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے بجلی سے چلنے والی وہیکلز کی درآمد اور کوئلے سے بننے والی بجلی کی جگہ آبی وسائل سے ضرورت پوری کرنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ 2030ء تک بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد تیس فیصد تک ہو جائے گی اور نئے ڈیم تعمیر ہو جانے کے بعد کوئلے سے چلنے والے پاور ہاؤس کی بھی ضروت نہیں رہے گی وزیر اعظم نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت تین سال میں دس ارب درخت بھی لگائے گی۔ وزیر اعظم اس سے پہلے بھی ماحولیات کے حوالے سے ایسے خیالات کا اظہار اور اعلانات کرتے چلے آ رہے ہیں اور ان کے یہ منصوبے کسی شک و شبہ کے بغیر مفید ہیں۔ تاہم ضرورت یہ ہے کہ اس نوعیت کے جو منصوبے بنیں ان میں پیش رفت بھی مثبت ہو اور جس عملے نے یہ سب کرنا ہے وہ بھی دلجمعی سے قائل ہو کر یہ سب کرے تاکہ افادیت ہو، ابھی تو وزیر اعظم کی طرف سے کے پی کے میں بلین ٹری منصوبے کے حوالے سے ہی شکایات ہیں اور جو مہم ملک کے دوسرے حصوں میں شروع کی گئی اس کے بارے میں بھی رپورٹیں خوشگوار نہیں، دکھایا زیادہ اور لگایا کم گیا۔ کیونکہ ”فالو اپ“ کا نظام متعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اب بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد اور پن بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کے مفید ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جو موجودہ نظام ہے اسے قانون اور قواعد کی روشنی میں درست طور پر چلایا جائے۔ کارخانوں سے پیدا ہونے والی آلودگی، گاڑیوں کے دھوئیں سے ماحول کی خرابی اور پودوں کے درخت نہ بننے کی وجوہات پر توجہ بھی لازمی ہے، بڑے منصوبے شروع اور ان کی تکمیل درست اور اچھے اقدامات ہیں، لیکن اس سے قبل جو ڈھانچہ موجود ہے اسے معیار کے مطابق لانا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ بڑے اہم شعبے ہیں ان پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔