مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے اداروں کو دبانے کیلئے 10لاکھ فوجی تعینات
سرینگر(این این آئی)غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرکے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں 10 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی حریت پسندکشمیریوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اداروں کو دبانے کے لئے تعینات ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ سرینگر میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے انٹرویوز پر مبنی کشمیرمیڈیا سروس کے ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کے بعد کشمیریوں کی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ ہر عمر کے کشمیری کو سفاکانہ فوجی محاصرے کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن محمد احسن اونتو نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات کی شنوائی کرنے والے ایک قانونی ادارے ہیومن رائٹس کمیشن کو اس وقت ختم کردیاگیا جب گزشتہ سال 5 اگست کو بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ سرینگر کے علاقے ابان شاہ میں لوگوں پر تشدد اور شوپیان میں ایک جعلی مقابلے میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں تین نوجوانوں کے قتل کی تحقیقات کے لئے اب کوئی مناسب ادارہ موجود نہیں ہے۔قانون کے سابق پروفیسر اور نامور سیاسی مبصر شیخ شوکت حسین کے مطابق کشمیر میں انسانی حقوق سہہ طرفہ حملے کی زد میں ہیں۔علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند نہیں ہوئیں لیکن مودی حکومت نے کشمیر یونیورسٹی میں انسانی حقوق سے متعلق ڈپلوما کورس ختم کردیا۔ ریاست کے اپنے اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کو کام کرنے سے روک دیاگیا اور اب انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کو نشانہ بنایاجارہاہے۔محمد احسن انتوکو ایک کالے قانون کے تحت 5 اگست 2019 سے 13 اگست 2020 تک سرینگر سنٹرل جیل میں نظربند کیا گیا۔ اسے دوبارہ 2 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا اور 23 نومبر کو رہا کیا گیا۔ 29 اکتوبر کوبھارت کے تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے جموں و کشمیر کوئلیشن فار سول سوسائٹی کے دفتر اور اس کے کوآرڈینیٹر اور ایوارڈ یافتہ انسانی حقوق کارکن خرم پرویز کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔جموں و کشمیر کوئلیشن فار سول سوسائٹی کے متعدد کمپیوٹر ضبط کرلئے گئے۔ بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں اہم رپورٹس منظر عام پر لانے والے جے کے سی سی ایس نے چھاپوں کے بعد کام کرناہی چھوڑ دیا ہے۔
انسانی حقوق