سموگ میں لپٹی فضا اور ہماری ذمہ داریاں 

سموگ میں لپٹی فضا اور ہماری ذمہ داریاں 
سموگ میں لپٹی فضا اور ہماری ذمہ داریاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اس وقت ایک مرتبہ پھر  ہماری فضا  سموگ کی لپیٹ میں ہے،جس کی وجہ سے حد نگاہ میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے۔فضا میں چہار سو پھیلی سموگ کی وجہ سے نہ صرف نظام زندگی  متاثر ہو چکا ہے، بلکہ یہ مختلف بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے۔ویسے تو ہمارے یہاں سال بھر میں گرمی،سردی،خزاں اور بہار کی صورت میں چار موسم پائے جاتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں سے ہر سال نومبر کے مہینے میں  ایک  نیا موسم سموگ، یعنی زہریلی دھند کی شکل میں بھی آن دھمکا  ہے، جس کا دورانیہ تو قلیل مدت پر محیط ہے، لیکن اس کے انسانی صحت پر نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ ابھی موسم کے تیور مکمل طور پر نہیں بدلے، لیکن سموگ کی وجہ سے فضا میں ٹھنڈک کا احساس موجود ہے، جو سموگ کے خاتمے کے ساتھ ہی رخصت ہو جائے گااور دسمبر کے آخر میں جاڑے کا موسم  اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ شروع ہو گا،یعنی ٹھٹھرتی صبح ِ،چمکتی  سنہری دوپہریں اور اداس شامیں۔ خیر بات ہو رہی تھی سموگ کی تو ان دنوں شہر لاہور سموگ کی بد ترین لپیٹ میں ہے اور یہ سلسلہ آہستہ آہستہ  دوسرے شہروں تک بھی پہنچ رہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سموگ کیا ہے؟تو اس سوال کے  جواب سے  پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ فوگ کیا ہے؟ مختصرا فوگ جسے  عرف عام میں دھند کا نام دیا جاتا ہے بظاہر تو  بادلوں کا ایک غلاف ہے جو  سرد موسم میں نظر آتا ہے۔ سائنسی  نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہوا میں ہر وقت آبی بخارات  موجود ہوتے ہیں، لیکن جب ہوا میں نمی کا تناسب ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو یہ بخارات ہوا سے الگ ہو کر فضا میں موجود گرد و غبار اور دوسرے ذرات کے اوپر جم جاتے ہیں،اور پانی کے قطروں کی شکل میں زمین کے اوپر فضا میں معلق ہو جاتے ہیں اور دھند کا سماں پیدا کرتے ہیں۔


جہاں تک سموگ کی بات ہے تو  یہ اصطلاح سب سے پہلے سموگ اور فوگ کو ملا کر بنائی گئی، یعنی دھوئیں،گرد و غبار اور  دوسری گیسوں سے مل کر بننے والی دھند،  جسے زہریلی یا آلودہ دھند بھی کہا جا سکتا ہے۔سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے،جو سلفر ڈائی آکسائیڈ،کلورو فلورو کاربنز،کاربن مانو آکسائیڈ،تابکار مادوں،گاڑیوں کے دھوئیں سے خارج ہونے والی نائٹروجن کے آکسائیڈز،ہائیڈروکاربنز،میٹلک کمپاؤنڈز اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے فضا میں شامل ہونے والے فضائی پلوٹینٹس کی وجہ سے بنتی ہے۔یہ فضائی پلوٹینٹس جب دھند کے ساتھ جا ملتے ہیں تو یہ کالے اور زرد رنگ کی سموگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔بہرحال سموگ  پہلی  دفعہ ہمارے ہاں ہی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ ایک  بین الاقوامی مسئلہ ہے، اس سے قبل لندن،لاس اینجلس، بیجنگ، تہران، دہلی، میکسیکو اور دنیا کے کئی بڑے بڑے شہر اس کی لپیٹ میں رہ چکے ہیں، جہاں تک حالیہ سموگ کا تعلق ہے، آئندہ  چند روز میں اس کے ختم ہونے کے امکانات ہیں، اور اگر بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جائے تو  حالات فی الفور معمول پر آ جائیں گے۔اب اگر سموگ کے مہلک اثرات پر نظر ڈالی جائے تو یہ انسانی جسم کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ سموگ نظر کی خرابی کے علاوہ  گلے کی خراش، سینے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ان بیماریوں میں  مبتلا افراد کوبہت احتیا ط کی ضرورت ہے۔اس کے لئے طبی ماہرین کی ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کرنا ضروری ہو گا،جن کے مطابق اس طرح کے موسم میں کھلے ماحول میں گھومنے  پھرنے سے پرہیز کیا جائے،منہ اور ناک پر ماسک وغیرہ  پہن کر  رکھیں،پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے  وغیرہ وغیرہ۔


اب ایک اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مستقبل میں سموگ اور اس طرح کی دوسری فضائی آلودگی سے کیسے نمٹا جائے؟  تو چونکہ یہ مسئلہ دنیا بھر کے ممالک کو درپیش ہے اس لئے  اس کے سد باب کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں بھی کی جارہی ہیں،لہٰذا ہمیں بھی اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔کم ازکم ایسے اقدامات ضرور اٹھانا ہوں گے کہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔ اس سلسلے میں فوسل فیولز، یعنی کوئلے،گیس اور تیل کی بجائے انرجی کے متبادل ذرائع، جن میں سولر انرجی،اٹامک انرجی،ہوا اور پانی کی انرجی وغیرہ شامل ہیں،ان پر انحصار بڑھایا جائے،کیونکہ فوسل فیولز کے جلنے سے فضا میں دھوئیں کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار بھی شامل ہو جاتی ہے، جو فضا کو آلودہ کر دیتی ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں،علاوہ ازیں صنعتی پلانٹس، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں اور دوسری زہریلی گیسوں کو ایک خاص حد تک کم کیا جائے تا کہ ہم اور ہماری نسلیں ان کے مہلک اثرات سے محفوط رہ سکیں۔سر دست  جہاں تک موجودہ صورت حال کا تعلق ہے تو یہ کسی فرد واحد کا نہیں،بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے جس کے خلاف مناسب حکمت عملی اپنائی جائے، اس  لئے حکومتی سفارشات پر عملدرآمد کو  یقینی بنائیں۔ ایسی تمام انسانی سرگرمیاں جو فضائی آلودگی کا ذریعہ ہیں،ان کو  محدود کریں۔ امید واثق ہے کہ ہم میں سے ہر ایک  اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا تا کہ مستقبل میں صاف و شفاف ماحول میں سانس لے سکیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -