آخر ہمارا کیا بنے گا؟
متحدہ ہندوستان کے شہر دہلی میں ایک جیب کترا جب اپنے گرو کے پاس پہنچا تو گرو نے پوچھا۔ کیا کما کے لائے ہو؟ جیب کترے نے کہا کہ گرو جی!آج کافی لمبا ہاتھ مارا تھا۔ ایک گورے کی جیب کاٹی تھی۔اس کا بٹوہ نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔لیکن میں نے اس کا بٹوہ واپس کر دیا۔ گرو نے غصے میں پوچھا۔ کیوں واپس کیا؟ چیلے نے کہا۔ گرو جی! میں بٹوہ لے کر بھاگنے لگا تھا کہ مجھے خیال آیا یہ گورا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ماننے والا ہے تو کل قیامت کے دن کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نہ کہہ دیں۔ آپ کے امتی نے میرے امتی کی جیب کاٹ ڈالی۔ بس اسی خیال کے آتے ہی میں نے اس گورے کا بٹوہ واپس کر دیا۔ گرو یہ سن کر رونے لگا اور کہا۔ میرے بچے تم نے بہت اچھا کام کیا اور اس چیلے کو دس روپے اپنی جیب سے دئیے۔
مزدور شاعر احسان دانش کی سوانح ”جہان دانش“ سے اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد مجھے دہلی کے جیب کترے پر رشک آیا کہ جس زمانے کے مجرم ایسے تھے تو اس زمانے کے محرم کیسے ہوں گے اور ایک ہم ہیں کہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے نبی سوہنے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر لوگوں کو زندہ جلا رہے ہیں۔
روز قیامت کیسا عجیب منظر ہو گا۔جب محبوب سبحانی آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذات خود سیالکوٹ میں جلائے جانے والے سری لنکن غیر مسلم کے وکیل بن کر آئیں گے۔
خدا کی پناہ! توہین مذہب کے محض الزام میں کائنات کی عظیم ترین ہستی، پیغمبر امن، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے جنت کے سردار شہزادہ سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام کو بہانہ بنا کر سفاکانہ انداز میں لاتوں، مکوں، ڈنڈوں کی برسات میں بڑی بے دردی، خوفناک اور شرمناک طریقے سے بھڑکتے شعلوں کے حوالے کر دیا گیا۔
آج سے چودہ سو سال پہلے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی لاش کو آگ لگانے سے منع فرمایا ”آگ میں جلانے کی سزا، صرف (آگ کے خالق) اللہ تعالی ہی کو زیبا ہے۔ (صحیح بخاری 2954)
سوال یہ ہے کہ ہم بطور امت کل کلاں ظالموں کے سپہ سالار بن کر روز قیامت سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا کیسے کریں گے؟
اللہ کے آخری رسول کریم مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ”خبردار! جس نے کسی اقلیتی فرد پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز چھین لی تو قیامت دن میں (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اس اقلیتی فرد کی طرف سے (ظالم سے) سے جھگڑا کروں گا“۔اس حدیث شریف کو پڑھ کر ہمارے اس دعویٰ کی قلعی بھی کھل جاتی ہے کہ رحمت للعالمین ہماری شفاعت فرمائیں گے۔
اور اگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ پوچھ لیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ تو تم نے جو کیا سو کیا۔تمہیں ہر لمحہ اللہ کو یاد کرنے کے بجائے جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کرنے، کم تولنے، ہمسائیوں کا خیال نہ رکھنے، فرعونیت کے نشے میں چور ہو کر زمینی خدا بنے اپنے ماتحتوں سے غلاموں جیسا سلوک کرنے، منبروں پر بیٹھہ کر دین سکھانے کے بجائے اپنے پیٹ کی خاطر تفرقہ بازی، اشتعال انگیزی، شدت پسندی کو ہوا دینے، نابالغ بچے، بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے، جھوٹی گواہیاں دینے، بیوواؤں اور یتیموں کا مال کھانے، لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے، بے صبری، رشوت خوری اور کرپشن کے عالمی ریکارڈ بنانے، چھوٹی چھوٹی بات پر اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینے، ناحق قتل عام کرنے اور سب سے بڑھ کر منافقانہ طرز عمل اختیار کرتے دین اسلام کے ٹھیکیدار بن کر اپنے آپ کو جنت الفردوس کا حق دار اور دوسروں کو کافر کی ڈگری جاری کرتے وقت میں (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کیوں یاد نہ آیا؟
مجھے تو رہ رہ کر یہ خیال آرہا ہے کہ دنیا میں نامراد اور بدبخت کورونا مقبوضہ کشمیر، بھارت، برما، شام، فلسطین میں ظلم کی داستان رقم کرنے اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری اور ناانصافی کی وجہ سے ہم پر مسلط ہوا۔ ابھی کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں کہ مقدس ہستیوں کے نام پر جلتی لاش کے دامن میں فاتحانہ انداز سے سیلفیاں بنانے والے جنونیوں اور حیوانیت کی انتہا کرنے والے درندوں کے اس مکروہ فعل کی بدولت آخر ہمارا کیا بنے گا؟
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ (آمین)